فکرو ادراک
قیصر محمود عراقی
آئی ٹی کی ترقی نے پوری دنیا کو ایک محلے میں بدل دیا ہے اور یہ محلہ ہے عالم پورہ یعنی ’’گلوبل ویلیج‘‘اس عالم پورے میں آئی ٹی کی ترقی کا سفر برق رفتار ، نان اسٹوپ ٹرین کی طرح جاری ہے۔ آئی ٹی کی ترقی کو اگر اعداد وشمار کی قید میں لانا چاہیںتو اس کی مثال ایک دو تین چار سے نہیں دی جاسکتی بلکہ یہ ایک ، دوہزار ، چار لاکھ، آٹھ کروڑ کی رفتار سے چھلانگیں لگارہی ہے۔ اس عالم پورے میں غریب ممالک کچی بستیوں کی طرح ہیںان میں سے ایک کچی بستی ہماری بھی ہے، اس بستی کے دانشور، ماہرین سماجیات اور ماہرین بشریات آئی ٹی کی ترقی کی رفتار کو سمجھ نہیں پارہے۔ ابھی وہ اس کے ایک پہلو کی تفہیم ہی مکمل کرپاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس دوران آئی ٹی کے چھلاوے نے کئی اور میدان بھی فتح کرلئےہیں۔ اسی لئے ہمارے ماہرین سماجیات دانتوں میں انگلی دابے حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں لگارہے ہیں۔ آئی ٹی کی ترقی کا ایک ثمر فیس بک ہے، یہ میٹھا پھل جو کچھ زیادہ ہی پک گیا ہے، زیادہ پکنے کی وجہ سے زیادہ رس نے پھل کو خراب کردیا ہے اور اس میں کہیں کہیں کیڑے پڑگئے ہیں۔
انٹرنیٹ اور فیس بک دورِ حاضر کا ایک خاص تحفہ ہے جو پوری دنیا کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ انٹر نیٹ اگر آنکھ ہے تو فیس بک اس کا فوکس ٹھہری ، دنیا بھر کے کروڑوں لوگ دن رات فیس بک استعمال کررہے ہیں، فیس بک آئی تو میں نے سوچا کہ یہ ایک مفید ایجاد ہے، اس سے میرا رابطہ پورے عالم کے ادیبوں، عالموں، دانشوروں، شاعروںاور صحافیوں سے ہو جائیگا، میری تحریریں اب سرحدوں کی قید سے آزاد ہوکر دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو پڑھنے والے موجود ہیں ، وہاں پڑھی جائینگی اور پھر ایسا ہی ہوا۔ لیکن کیا کریں اس پھول کے ساتھ کئی کانٹے بھی اگ آئے۔ فیس بک نے انسان کے دکھوں کو کم کرنے کے بجائے بڑھادیا ہے، دُکھ شاید ختم نہیں ہوتے ان کے کام اور شکلیں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ایک جدید تحقیق کے مطابق فیس بک انسانوں کی اداسی اور مایوسی میں اضافہ کررہی ہے۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ میری بہن کی ایک سہیلی تھی جسے فیس بک کی وجہ سے شادی کے پہلے ہی روز یعنی شب عروسی میں ہی طلاق تھمادی گئی۔ شاید غلطی فیس بک کی نہیں ، اس کے غلط یا صحیح استعمال کی تھی، فیس بک نے سماج کو مکمل طور پر بدل دیا ہے، اس بدلائوں میں پرانی روایات اور رسوم ورواج کے بندھن ٹوٹ رہے ہیں، کچھ ٹوٹ چکے ہیں، اخلاقی ضابطوں کی گرہیںڈھیلی پڑرہی ہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے چھری سے ہم پھل بھی کاٹ سکتے ہیںاور کسی کی ناک بھی۔ میرے دوست نے بتایا کہ میری بہن کی سہیلی کا فیس بک پر کوئی دوست بنا تھااور پھر دوستی محبت میں تبدیل ہوگئی ، پھر اس نے شادی کرلی، سہاگ رات پر لڑکے نے کہا :آپ بہت اچھی ہو ، آپ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی ہو اور مجھے بہت پسند ہو لیکن مجھے فیس بک پر آپ کے دوست پسند نہیں، حالانکہ موصوف کی بھی فیس بک پر ہی ان سے آشنائی ہوئی تھی۔ آپ پلیز سب لڑکوں کو ان فرینڈ کردو، لڑکی نے کہا:بالکل نہیں، میں ایسا نہیں کرسکتی ، آپ بھی تو میرے فیس بک فرینڈ ہی تھے، پھر اتنے دقیانوسی کب سے ہوگئے آپ؟ اس نے کہا:اگر نہیں ہوسکتا تو یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ہم ایک ساتھ زندگی گذاریں۔ لڑکی نے کہا:کیا یہ آپ کا آخری فیصلہ ہے یا آپ مذاق کررہے ہیں؟ لڑکے نے کہا ،اگر تم ضد اور ہٹ دھرمی سے بعض نہیں آئوگی تو اسے آخری فیصلہ ہی سمجھواور کل صبح واپس اپنے گھر چلی جائو۔ لڑکی نے غصے میں کہا: کل صبح کیوں؟ ابھی کیوں نہیں؟ لڑکے نے کہا:یہ زیادہ بہتر ہے ، ابھی ٹیکسی منگوائے دیتا ہو ، ٹیکسی آئی اور پھر آٹھ گھنٹے کی دلہن ٹیکسی میں بیٹھی اور واپس اپنے گھر پہنچ گئی، اس میں قصور کس کا تھا؟ اسی طرح ایک رپورٹر دوست نے بتایا کہ فیس بک اور سیل فون میں طلاقوں کی شرح میں اضافہ کردیا ہے، فیس بک نے لوگوں کا ڈپریشن بڑھادیا ہے، جب غریب اور نادار لوگ دیکھتے ہیں کہ ان کے دوست احباب ، رشتے دار ، ہم سائے اور محلے دار سیر اور برف باری سے لطف اندوز ہورہے ہیں، مختلف ہوٹلوں میں لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں تو وہ ڈپریش ہوجاتے ہیںکہ یہ سب کچھ ہمارے پاس کیوںنہیں؟وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے دوست نئے اور قیمتی کپڑے پہن رہے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور بڑے بڑے عالیشان محلات میں رہ رہے ہیں تو حرکتوں، چیزوں ، تعیشات اور لائف اسٹائیل سے محروم لوگوں کی محرومیوں میں اور بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
فیس بک کا ایک علمی اور ادبی کردار ہے لیکن ہم نے اس کے سارے کردار پس پست ڈال کر اس کا صرف ایک ہی مقصد ڈھونڈ لیا ہے کہ اپنے سے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ کیسے جلایا جاسکتا ہے، لوگ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں لوگ آم کھاکر اس کے چھلکے باہر کھل عام نہیں پھینکتے تھے، مبادہ کسی غریب آدمی کا دل نہ دکھے، اور اب یہی چھلکے فیس بک پرجا بجا دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مجھے دادی اماںکی وہ کہانی اور وہ کھیل یاد آرہا ہے ، جو وہ ہم لوگوں کو بچپن میں اکثر سنایا کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک بہت ہی غریب گھرانے کی جوان لڑکی ایک بہت ہی امیر خاندان کی گھریلوں ملازمہ تھی، جب اس خاندان کی ایک بیٹی کی نسبت طے ہوئی اور شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں تو روزانہ لاکھوں کے زیورات ، کپڑوں، جوتوںاور دوسری اشیائے تعیش اور نمائشی چیزوں کی خریداری ہونی لگیں۔ وہ نوجوان گھریلوں ملازمہ یہ سامان دیکھ دیکھ کر کڑہتی ہے اور دل ہی دل میں کہتی ہے کہ ایک میری ماں ہے جو میرے جہیز کیلئے دن رات سلائی مشین چلا چلا کر کپڑا لتا بنارہی ہے جبکہ اس امیر خاندان کیلئے لاکھوں روپیہ بھی ہاتھ کا میل ہے۔ آخر کار اس صدمے سے لڑکی کی دماغ کی شریان پھٹ جاتی ہے اور وہ مر جاتی ہے۔ لڑکی کی والدہ ایف آئی آر کٹوانے تھانے پہنچ جاتی ہے اور تھانے دار سے کہتی ہے کہ اس کی بیٹی کی قتل کی ایف آئی آر اس امیر خاندان کے خلاف کاٹی جائے کیونکہ ان کے دکھاوے کی وجہ سے میری بیٹی کی جان گئی۔ ہمارے سماج میں اس طرح کی ہزاروں غریب کی بیٹیاں سسک سسک کر اور گھٹ گھٹ کر مر جاتی ہیں، لیکن فیس بک پر نئی نئی چیزوں کی نمائش کرنے والوں کو شرم نہیں آتی اور اب اس ملک کے کروڑوں غریب جو خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہے ہیںکا دل جلانے کیلئے فیس بک ان پہنچی ہے، جس کا صرف اور صرف مقصد محروم لوگوں کا دل جلانا رہ گیا ہے۔
آپ نے کوئی نئی کتاب پڑھی تو وہ فیس بک پر شیئر کریں، کوئی اچھی بات سیکھی ہے تو وہ فیس بک پر ہمیں بتائیں، ایسی پوسٹ مل جاتی ہے لیکن خال خال ، زیادہ تر سیلفیاں ہی سیلفیاں ، ناشتہ کرتے ہوئے، گاڑی چلاتے ہوئے، یہ کرتے ہوئے، وہ کرتے ہوئے اور اوپر سے لائک کرنے والوں کا حال دیکھ لیں جو بغیر دیکھے اور جانے لائک پہ لائک مارے چلے جارہے ہیں۔ خوشامد پسند معاشرے میں کہاں کوئی سچ بولتاہے؟ فیس بک کی زیادہ تر پوسٹوں کا مقصد دل جلانا ، خودنمائی ، سوخی مارنا، پھوہڑ بازی کرنا اور ڈینگیں مارنا کا مظاہرہ ہی رہ گیا ہے، اسی لئے جب ایک محقق نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ انسانوں میں ایک نئی بیماری در آئی ہے جس کا نام فیس بک ڈپریشن ہے۔ فیس بک دیکھنے والے محروم لوگوں کو یوں لگتا ہے کہ پوری دنیا عیش کررہی ہے اور وہی مسائل کا شکار ہیںحالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج اتنا ہی کافی ہے باقی پھر سہی۔
رابطہ۔6291697668