دنیا،انسان اور زندگی،تینوںلازم وملزوم ہونے کے ساتھ ہرلمحے اپنی بے ثباتی کا یقین دلاتی ہیں ۔اکثر ہم کہتے اور سنتے رہتے ہیں کہ دنیا فانی ہے،انسان فانی ہے، زندگی فانی ہے۔یہ بات حق بجانب ہے کہ دنیا دارالعمل ہے۔اس میں انسان کی حیثیت ایک کردار کی ہے۔زندگی کو زندہ دلی سے بھی تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔پیغمبرانہ دور سے لے کر مابعد جدید دور تک دنیا کے تمام علوم وفنون،فکر وفلسفے،علمی ادبی سائنسی اورمذہبی دانش گاہیں آدمی کو ایک بہترین انسان بننے اور اس سرائے فانی میں میں عالمی امن وبھائی چارے،رواداری اور انسان دوستی کے اوصاف پیدا کرنے کی تعلیم وتربیت دیتی آئی ہیں۔غرض یہ کہ اس حیات وکائنات میں آکے ہر آدمی اپنے نیک اعمال سے اپنی اور دوسروں کی زندگی کوخوشحال،باوقار اور کامیاب بنا سکتا ہے یا پھر دوسری صورت میں اپنی بد اعمالیوں کے سبب مایوسی،بے چینی،ذلت ورسوائی اور دوذخ میں لے جانے والی بناسکتا ہے۔
اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتارترقی کی صدی ہے۔آئے دن عقل کو خیرہ کردینے والی نئی نئی چیزوں نے آج کے انسان کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک عالمی گاوں میں بدل دیا ہے۔انٹر نیٹ اور موبائل فون کی آمد سے جہاں عہد ماضی کے مقابلے میں کئی مشکلیں آسان ہوگئی ہیں ۔تو وہیں کئی ایسے تشویش ناک مسائل پیدا ہوچکے ہیںجن کاکوئی معقول حل نظر نہیں آتا ہے۔مثلاًموبائل فون کا سب سے منفی استعمال نوجوان کررہے ہیں جس کی وجہ سے سماج میں جرائم کا گراف بڑھ گیا ہے۔انٹر نیٹ کے ذریعے تقریباً ہر عمر اور طبقے کے لوگ گھر بیٹھے بیٹھے پوری دنیا کی سیر کررہے ہیں ۔ایمانی ضعف اورخوف آخرت نہ ہونے کی وجہ سے بھاری تعدادبلالحاظ مرد وزن انٹر نیٹ پہ ایسی سائٹس پہ جاتے ہیں جہاں وہ فحاشی،عریانیت اور حیا سوز رقص ابلیس بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔جب موبائل فون اور انٹر نیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا تو لوگ بڑے شوق وذوق سے علمی و ادبی کتابیں پڑھتے تھے اور ہاتھ سے کتابیں لکھتے تھے۔بلکہ مقّدس کتابیں پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کرتے تھے۔کتاب خوانی سے ذہنی حظ اور روحانی مسرت وبصیرت حاصل ہوتی تھی۔علمی وادبی زبان سیکھنے کا بہتر اور واحد ذریعہ کتاب ہوا کرتی تھی۔علم وادب سے جنون کی حد تک لگاو رکھنے والے لوگ ملبوسات کم خریدتے تھے اور کتابیں زیادہ۔سچ سنیے توکتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوا کرتی تھیں ۔کتابوں سے دوستی ایک ایماندارانہ اور عالمانہ عمل مانا جاتا تھا۔سنجیدہ ،باذوق اور باادب قسم کے لوگ کتاب کی عظمت،اہمیت وافادیت کو بہتر جانتے تھے،لیکن موبائل فون نے ہم کومکتوب نگاری سے دور کردیااور انٹرنیٹ نے ہم سے کتاب چھینی،فیسبُک دے دی۔کتابیں اب بھی لکھی جارہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی لیکن انھیں پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن گھٹتی جارہی ہے۔وہ لوگ کہ جوکسی زمانے میں کتاب خوانی کے بغیر مضطرب رہا کرتے تھے ،اب وہ بھی کتاب کے بدلے گھنٹوں فیسبُک پہ لگے رہتے ہیں ۔کتابیں بند الماریوں میںدیمک کی خوراک بن رہی ہیں ۔وہ ترس رہی ہیں کہ انھیں کوئی پڑھنے والا ملے مگر فیسبُک جیسی سوتن نے کتاب سے اس کا قاری چھین لیا ہے۔میں یہاں مشہور فلمی نغمہ نگار جناب سمپورن سنگھ گلزار کی ایک آزاد نظم ’’کتابیں‘‘بطور حوالہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جس میں انھوں نے انٹر نیٹ کے اس دور میں کتاب سے لطف اندوزی کو بڑے دلکش شاعرانہ پیرایے میں یوں بیان کیا ہے ؎
’’کتابیں جھانکتی ہیںبند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جوشامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیو ٹرکے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انھیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جورشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوںکے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈلگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے کٹوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذ ائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا چاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جوذاتی رابطہ تھا کٹ گیاہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بناکر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گاآئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول اور
مہکتے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے،گرنے،اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا؟
وہ شائد اب نہیں ہوں گے!!!‘‘
بچے جوان،بوڑھے مرد وعورتیں تقریباًسبھی فیس بُک اور آاٹس ایپ کے قیدی ہوکے رہ گئے ہیں ۔اللہ معاف کرے ایک طرح کے اسیر ہوس۔اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنے،اچھے لگنے اور نئے نئے رنگ روپ بدلنے کی چاہت میں خود نمائی کے احمقانہ جذبے کے ساتھ ہرروزنہیں ،ہر دو گھنٹے کے بعد فیس بُک پہ جلوہ افروز ہوتے ہیں اور پھر فیس بُک پہ کیا کچھ نہیں ہوتا ہے۔اچھا بُراسب ایک ساتھ۔اچھا تو لوگ کم ہی دیکھتے ہیں ۔بُرا دیکھنے والوں اور اس پہ اَپ لوڈ کرنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ایک زمانہ تھا جب لوگ تفریح طبع کے لیے سینما دیکھنے جاتے تھے،لیکن اب ہاتھ پہ سینما آگیا ہے۔ماننا پڑے گا کہ فیس بُک بینی کسی بھی بڑے اور بُرے نشے سے کم نہیں ہے۔جب کوئی بھی آدمی فیس بُک کھولتا ہے تو اسے اپنے ہر دوست کے سوانحی ا ور دیگر کوائف دیکھنے،جاننے کی للک رہتی ہے اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ طرح طرح کی ویڈیوز،جووحشت وبربریت،جنسی برانگیختگی،فرقہ پرستی اوراشتعال انگیزتقریروں پہ مبنی ہوتی ہیں،بہت حد تک ہماری نفسیاتی دنیا کو تہ وبالا کردیتی ہیں ۔ایک شریف النّفس آدمی یہ سوچ کے رہ جاتا ہے کہ حیران ہوں ان دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں!پوری دلچسپی اور ذہنی یکسوئی کے ساتھ فیس بُک دیکھنے کے مضر اثرات ہماری جسمانی ، نفسیاتی اور روحانی زندگی پہ پڑرہے ہیں ۔بچّے بالغ ہونے کی عمر سے پہلے ہی بالغ ہورہے ہیں۔ایک آزادانہ ذہن کہ جس پہ کوئی قدغن نہیں ہے،بُرائی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے اور زندگی ہے کہ برف کی سل کی طرح یا شمع کی مانندوقت کے دھارے میں ختم ہورہی ہے۔انسان گردش دوراں میں بے بس ومجبور ہے۔وقت، کو ہم روک نہیں سکتے ہیں ۔یہ وقت ہی ہے جو ایک آدمی کوبچپن سے لڑکپن،لڑکپن سے جوانی ،جوانی سے بڑھاپے اور پھر اسے ایک دن سفر آخرت پہ روانہ کردیتا ہے۔کسی شاعر نے وقت سے متعلق کیا خوب کہا ہے ؎
وقت سے دن اوررات،وقت سے کل اور آج
وقت کی ہر شے غلام ، و قت کا ہر شے پہ راج
وقت کی گردش سے ہے چاند تاروں کا نظام
وقت کی ٹھوکر میں ہے کیا حکومت کیا سماج
وقت کی پابند ہیں آتی جاتی رونقیں
وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
آدمی کو چاہیے وقت سے ڈر کر رہے
کون جا نے کس گھڑی وقت کا بدلے مزاج
اللہ تعالیٰ کی ذات خالق کُل ہے۔ہرچیز اسی کے قبضئہ قدرت میں ہے۔ حیوانات،نباتات وجمادات کے علاوہ ارضی وسماوی نظام اپنے پورے مظاہرے فطرت کے ساتھ ایک منظم طریقے سے چل رہا ہے ۔انسان کو اشرف المخلوقات کہا گیا ہے۔گویا تمام مخلوقات پہ اسے فوقیت حاصل ہے۔انسان کو پیدا فرمانے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اس کی ضروریات زندگی کا سامان پیدا کردیا ہے اور اس پر سب سے بڑاکر م یہ فرمایا کہ اسے بہتر ،خوشحال اور دنیاوآخرت میں کامیاب زندگی گزارنے کا نصاب بھی قرآن وحدیث کی صورت میں دیا ۔ایک ایسا محسن انسانیت نبی مکرم صلی ا للہ علیہ وسلم مبعوث فرمایا ،آپ پہ کروڑوں درود وسلام۔اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان کو یہ وارننگ ہے کہ ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے ! کتنی ذبردست جمودتوڑسچائی ہے،لیکن اس کے باوجود ہماری بے فکری،دنیا طلبی اور نفس پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم تمام خباثتوں کے ساتھ جی رہے ہیں ۔ہائے حسرت وائے افسوس!اس بات پہ کہ ہم قرآن و حدیث نہیں پڑھتے ،فیس بُک پڑھتے ہیں!آدھی آدھی رات تک ہمارے نوجوان فیس بُک پہ کیا کیا دیکھتے ہیں اور صبح ان کی آنکھ نہیں کھلتی ،نماز قضا کردیتے ہیں ۔ موبائل فون اور انٹر نیٹ کے غلط استعمال سے خود کشی،لڑائی جھگڑے،گالی گلوچ،حرام کاری اورچوریاں ہورہی ہیں۔حد تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی صحت مندتنقیدی پہلوکو ایک طرف رکھ کرفیسبُک پہ ایسے مخرب اخلاق کمنٹس کرتے ہیں جن میں کسی کی دل شکنی،تضحیک،طنز ورمز اور معرکہ آرائی شامل ہوتی ہے۔زندگی کا ہر لمحہ انسان کے لیے بہت قیمتی ہے۔ہم سے پہلے اس دنیا میں جو لوگ آئے تھے اچھے بُرے سب چلے گئے۔ہم کو بھی جانا ہے اور جو ہمارے بعد آئیں گئے وہ بھی چلے جائیں گے۔جب یہ صداقت ہے تو پھر ہم کیوں اچھے اور بُرے کا خیال رکھ کر نہیں جیتے؟کہتے ہیں قبر دن میں کئی بار یہ آواز دیتی ہے کہ میں کیڑوں کا گھر ہوں ،میں وحشت وتنہائی کاگھر ہوں ، میں نیک اعمال کرنے والوں کو آرام پہنچاتی ہوں اور بُرے اعمال کرنے والوں کے لیے عذاب بن جاتی ہوں۔گویا جہاں ہمیشہ کے لیے جانا ہے وہاں کی کو ئی تیاری نہیں اور دنیا کی یہ غیر یقینی زندگی کہ جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اسے یہاں کتنے ماہ وسال جینا ہے اس کی بہت زیادہ فکر ہے۔بقول شاعر ؎
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں
عقل مند اور خوش نصیب ہے وہ آدمی جو مرنے سے پہلے توشہ ٔ آخرت کی فکر میں لگ جائے ۔سائنسی اور تکنیکی چیزیں جو ہمیں میسر ہیں وہ تمام اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں ۔ریڈیو ،ٹیلی ویژن،انٹر نیت،موبائل فون،کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ وغیرہ یہ تمام ہماری روزمرہ زندگی کی اہم ترین ضروریات میں شامل ہیںلیکن مسلٔہ صرف ان کے جائز و ناجائز استعمال کا ہے۔بس اس کی مثال یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح ہم گھر میں چھری سے ساگ سبزی اور پھل وغیرہ کاٹتے ہیں ،اسی طرح ہم چاہیں تو کسی آدمی کا گلا بھی کاٹ سکتے ہیں ۔غرض یہ کہ اچھی نیت رکھ کر کوئی اچھا کام کریں گے تو اچھے کہلائیں گے اور بُری نیت رکھ کرکوئی بُرا کام کریںگے تو بُرے کہلائیں گے۔لہٰذا ہماری یہ پہلی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ہر کام کرنے سے پہلے اپنی نیت کو ٹٹولیں کہ ہم جو فلاں کام کرنے جارہے ہیں یہ صحیح ہے یا غلط۔اس طرح کا ذہن ودل لے کر جب ہم جینے لگیں گے تو یقیناًامن وسکون اور خوشحالی کا ماحول پیدا ہوگا۔ورنہ جوتشویش ناک اور پُر فتن ماحول و معاشرہ ہمارے سامنے ہے اس سے ہم بخوبی واقف ہیں اور اس سے جوجھ رہے ہیں۔ہم جب آنکھوں سے صحیح نہیں دیکھتے ،کانوں سے صحیح نہیں سنتے،دماغ سے صحیح نہیں سوچتے،دل سے صحیح نہیں چاہتے،زبان سے سچ نہ بولنے کے بجائے جھوٹ، دھوکہ وفریب،چاپلوسی،عیّاری،مکاری،منافقت،حسد،بغض وعناد،غرور وتکبراور موہ مایہ کے مکڑ جال میں پھنس جاتے ہیں تو اپنے اور دوسروں کے لیے تباہی کے دروازے کھول دیتے ہیں ۔ہمارے غلط اور بُرے کام کرنے کے جو نتائج سامنے آتے ہیں انہیں ہم مقدر کا نام دیتے ہیں۔گویا یہاں بھی ہم مقدر کو الزام دے کے اپنا دامن بچاکے نکل جاتے ہیں ۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ سچائی ہے کہ فیس بُک کتابِ حیات پہ غالب آچکی ہے۔Facebookانگریزی کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ کتابی چہرہ مناسب رہے گا ،لیکن عملی طور پر ہم دراصل محرم وغیر محرم چہروں کو دیکھتے ہیں ۔کتاب، قاری سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ اسے لفظ لفظ پڑھا جائے مگر وائے حسرتا!ہمیں فیس بُک دیکھنے سے کہاں فرا غت!علمی وادبی کتاب پڑھنا تو درکنار،ہمیں تو قرآن مقدس پڑھنے کی بھی فرصت نہیں !اللہ تعا لیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتے ہیں:
’’قسم ہے زمانے کی،بے شک انسان خسارے میں ہے۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائےاور نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کوحق بات کی تلقین کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی‘‘بہرحال عقل مند ہے وہ شخص جس نے اپنے نفس کو قابو میں رکھا اور ایسے اعمال کیے جو موت کے بعدکام آئیں گے۔اس لیے اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیاکررہے ہیں۔
رابطہ :اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو ،بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی ۔۔۔راجوری(جموں وکشمیر)
فون نمبر 9419336120