سرینگر//کشمیری زبان میں سائنس کی ترقی، ترسیل اور پھیلاؤ کے لیے سنٹرل یونیورسٹی کشمیر میں’’کشمیری فکشن میں سائنس‘‘ کے عنوان کے تحت تیسرے روز بھی ورکشاپ کی کارروائی حسب معمول اپنے مقررہ وقت پر شروع ہوئی۔ ابتدائی نشست میں نظامت کے فرائض نذیر احمد نجار نے انجام دئیے۔اعجاز الحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ ادبی فکشن اور سائنس میں افتراق کرنے کی ضرورت ہے اس کے علاوہ انہوں نے کشمیری زبان میں سائنسی علوم کے ترجمے کے مسائل پر بھی گفتگو کی۔ محمد امین بٹ نے صدارتی کلمات ادا کر کے ورکشاپ کی رونق بڑھائی۔ دوسری نشست کا آغاز 11بجکر 40منٹ پر ہوا اور یہ ورکشاپ کا پانچواں تکنیکی شیشن تھا جس کی صدارت پروفیسر آفاق عزیز نے سنبھالی۔
اس نشست میں تین افسانے پڑھے گئے۔ افسانہ نگاروں (جن میں روف قیاسی، راجہ یوسف اور ڈاکٹر سوہن لال کول) کی تخلیق پر کھل کر بحث کی گئی۔ جس سے اسکالرس اور طلبہ مستفید ہوئے۔ اس نشست میں پروفیسر آفاق عزیز نے اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ فکشن میں سائنس کی ترسیل اور ترویج کے لیے ہر ممکنہ اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ چھٹے تکنیکی شیشن میں پروفیسر شفیع شوق نے پر مغز باتیں کی۔ انہوں نے زبان کی Hybirdityکے مسئلے پر بحث کی اور یہ بھی باور کرایا کہ سائنسی علوم کی ترسیل کشمیری زبان میں ممکن ہے۔ اس نشست میں بھی دو افسانے سنے گئے جن میں فیاض دلبر اور شکیل الرحمن کے افسانوں پر کھل کر بحث کی گئی۔ اس نشست میں نظامت کے فرائض سلیم سالک نے انجام دئیے۔ اختتامی نشست کی صدارت سنٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر محمد افضل زرگر نے کی اور نظامت سلیم سالک نے انجام دی۔ پروفیسر شاہد رسول (منتظم اعلیٰ اور اسکوپ کنوینر) نے مہمانانِ ذی وقار کا استقبال کیا۔ ورکشاپ کی روداد ڈاکٹر نظر علی نظر نے پیش کی ۔ فیاض دلبر، پروفیسر زماں آزردہ اور دیبہ نذیر نے پروگرام کے حوالے سے اپنے تاثرات پیش کئے۔ خصوصی کلمات ادا کرتے ہوئے پروفیسر محمد افضل زرگر نے تاکیداً کہا کہ ہمیں سائنسی علوم کی ترقی کے لیے کشمیر زبان کا سہارا لے کر اس کو ایک نئی روح بخشنی چائیے۔ ورکشاپ کے آخر پر شکرانے کی تحریک ڈاکٹر سید ثمرینہ گیلانی نے پیش کی۔