فکر و عمل میں تبدیلی لانے کی ضرورت

Mir Ajaz
6 Min Read

بلاشبہ آج بھی ہم اُسی معاشرے میں سانس لے رہےہیں،جس کا تعلق اُس دین ِ مُبین سےہے،جس کا نام ’اسلام ‘ہے۔جس میںرائج رسم ورواج ،اصول و عقائد اور قوانین وضوابط انسانوں کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے وضع کردہ ہیں جو تمام کائنات کا خالق ومالک ہے۔ مگر افسوس! آج ہما را معاشرہ اسلامی کہلانے کے باوجود بے اعتدالی اور افراط وتفریط کا شکار ہےاور بدقسمتی سے ہم ’اسلام‘ کے صرف نام لیوا رہ گئے ہیں،اگرچہ اللہ تعالیٰ کو تو مانتے ہیں لیکن نہ اللہ کی مانتے اور نہ ہی اسلامی قوانین پر عمل پیرا ہیں۔جس کے نتیجے میں ہم عملی طور پر لاقانونیت اور نفس پرستی کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں۔آج اگر ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ہماری گفتار اور ہمارے کردار کا اعلیٰ معیاربالکل پست ہوچکا ہے۔ ہمارے تعلقات خود غرضی کی بنیاد پر استوار ہو چکے ہیں جو معمولی اختلاف پر دشمنی میں بدل جاتے ہیں۔ برداشت اور رواداری ختم ہو چکی ہے اور ہر شخص دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہے۔ یہ المیہ صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر ہمارے لئے زوال کا سبب بن چکا ہے اور نتیجتاً ہماری معاشرتی بنیادیں لرز رہی ہیں اور ہم بحیثیت معاشرہ اپنی اصل شناخت کھو رہے ہیں۔ایسی کون سی بُرائی ہے جو آج ہمارے معاشرے میں نہیں پائی جاتیں۔ نا پ تول میں کمی، ملاوٹ ، چوری، سود، جھوٹ، رشوت ، منافقت، زنا، عریانی، نشہ خوری،جوا بازی، فحاشی، قتل وغارت غرض یہ کہ ہم اخلاقی ، معاشی اور سیاسی ہر اعتبار سے گراوٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔وہ بھی کیا زمانہ تھا ،جب اسلام کے پیرو کارزندگی کے ہر شعبے میںاپنے دینی احکامات کی پاسداری کے تحت اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دیاکرتے تھےاور انسانیت کی بقاء کے لئےمحبت و اخوت اور عدل و انصاف کا ایسا مظاہرہ کرتے تھےکہ غیر مسلم بھی اسلام کی اصل حقیقت اور اس کے پیرو کاروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ایک مشہور مغربی مصنف اسٹین لین پول اپنی کتاب ’’اسلام ان چائنا‘‘ میںاسلام کے پیروکاروںکی خوبیوں کا ذکر ان الفاظ میںکرتے ہیںکہ،’’وہ تجارتی معاملات میں امانت دار تھے اور کبھی خیانت کا ارتکاب نہیں کیاکرتے تھے۔ پھرجب وہ حاکم بنے تو انہوں نے ظلم کیانہ کبھی طرف داری سے کام لیا۔ وہ عزت والے تھے اور دوسروں کی بھی عزت کرتے تھے۔وہ متعصب نہ تھےبلکہ جہاں تک شریعت اسلامیہ انہیں اجازت دیتی ،وہ فراخ دل اورعالی نفس تھے۔ وہ غیر مسلموں کے ساتھ یوں مل جل کر رہتے تھے جیسے کہ ایک ہی خاندان کے افرادرہتے ہیں۔‘‘کئی دیگر غیر مسلم مغربی دانشوروںکے یہ بھی اقوال ہیں کہ ’’اسلام‘‘ اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہےجو ترقی یافتہ دنیا کی طرف بھیجا گیا ہے اور اس نے انسان کوبہتر زندگی کے ایسے اصول بتا ئے ہیں ، جن میں تبدیلی نا ممکن ہے۔ذرا غور کریں کہ ایک طرف وابستگان اسلام کے یہ بلند اخلاق کہ اغیار بھی اعتراف پر مجبور اور دوسری طرف ہماری موجودہ حالت ِ زار۔ آج کے اس خزاں رسیدہ معاشرے میں اخلاق وکردار ،حسن معاملات اور نرمی و محبت کے آثار مٹتے جارہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ احکاماتِ الٰہی کی عدمِ عدولی،اسلامی ضوابط و قوانین کی عدمِ پاسداری اور اللہ کے محبوب نبی کریمؐ کے اخلاق حسنہ سے دوری ہے۔جس کے باعث ہم دوسرے اقوام میں رُسوا اور ذلیل ہو رہے ہیں اور بگاڑ کا گھن تواتر کے ساتھ ہمیں دیمک کی طرح کھاتاجارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے فکر و عمل میں تبدیلی لائیں، پوری طرح اسلام میں داخل ہوجائیںکیونکہ جب ہم اللہ کے نام لیوا ہیںتو اللہ کی مان لینے میں ہی عافیت و سلامتی ہے ۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ جھوٹ بولنے والا ، ملاوٹ کرنے والا ، کم تولنے والا، ذخیرہ اندوزی کرنے والا، دھوکہ دہی کرنے والا، حق تلفی کرنے والااور اپنے مسلمان بھائی پر ہتھیار اُٹھانے والا مسلمان کہلانے کا حقدار نہیں ہے۔ تاریخ بھی گواہ ہے کہ جب مسلمانوں میں یہ سب برائیاں نہیں تھیں تو وہ اپنے عہدکے سپر پاور سمجھے جاتے تھے لیکن آج انہی بُرائیوں اور خرابیوں کی وجہ سے وہ زبوں حالی کا شکار ہے۔اس لئےاگر ہم واقعی اپنے معاشرہ کی اصلاح حا ل کے خواہش مند ہیں تو اللہ کی رسّی کو تھام کر ہی تباہی سے بچایاجاسکتا ہے اور سب سے پہلے ہمیںخود میں بہتری لانے کی کوشش کرنی ہوگی، جب تک ہم خود بہتر نہیں ہونگے ہم دوسروں کو بہتر نہیں بناسکتے۔

Share This Article