فکر و ادراک | وجود ِزن، ادیانِ عالم اور دین ِاسلام

حمیرا فاروق

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ دورِ جہالت میں انسانیت کی کوئی وجاہت نہیں تھی۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھےاور اس وقت سب سے زیادہ جو ظلم کی شکار عورت ذات تھی ۔لیکن جب ظہوراسلام ہوا تو اُس نے عورت کو فرش سے اُٹھا کر عرش پر بٹھا دیا ۔اسلام نے نہ صرف عورت کو عزت دی بلکہ اس کے حقوق بھی بحال کئے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام سے پہلے لفظ عورت سنتے ہی لوگوں کے دلوںکیا محسوس ہوتا تھا،بیٹی کی ولادت پر اُن کے چہرے کا رنگ سیاہ پڑ جاتا تھا اور ان کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ۔عورت کو نجاست کا ڈھیر سمجھ کر ایام حیض میں کچھ مخصوص جگہوں پر رکھتے تھے،اور انہیں ناپاک سمجھ کر ان کے ہاتھ کا کھانا تک نہیں کھاتے تھے ۔حتیٰ کہ مرد ان کے بستروں سے بھی الگ رہتے تھے ۔کل ملا کے اگر دیکھا جائے تو اُس وقت عورت ذات کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں تھی ۔مختلف ادیان میں اس کو مختلف تصور کیا جاتا تھا، ہر کوئی اس کو ایک کھلونا سمجھ کر استعمال کر کے پھینک دیتا تھا ۔ بے حیائی اور بے پردگی عام تھی، اس پر اتنے ظلم ڈھائے جا رہے تھے کہ اس کا جینا حرام ہوا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کئی مذاہب میں عورت محض ایک شَر تصور کیا جاتا تھااور اسے خیر والی چیز سے خالی سمجھا جاتا تھا۔وہ اتنے گھٹیا تصورات رکھتے تھے کہ عورت ذات کو شیطان کے پاس جانے والا ایک دروازہ سمجھتے تھے کیونکہ اس نے آدم کو پھسلا کر شجرِ ممنوعہ کی طرف رہنمائی کی اور ان کو جنت سے نکلوا دیا ہے۔ حالانکہ قرآن پاک اس کی تردید کرتا ہے ۔لیکن وہ عورت کو قابل اعتبار نہیں سمجھتے تھے ،بس ان کے لیے عورت ایک غلام کی حیثیت رکھتی تھی ۔خاوند کے مرنے پر اس کی بیوہ کو بھی خاوند کی چتا پر زندہ جلنا ہوتا تھا ۔اہل رومان اور یونان اور فرانس والے بھی اپنی عورتوں پر اتنا ظلم کرتے تھے کہ ان کا زندہ رہنا دشوار ہوتا تھا ۔عورت صرف ظاہری طور پر عورت تھی ،اس کو کھلے عام بازاروں میں خرید و فروخت کیا جاتا تھا اور یہ اتنی بے بس تھی کہ کسی بھی چیز پر اس کا اختیارنہیں تھا، مرد جو کہتا ، اسے و ہی کرنا پڑتا تھا ،چاہے اس کا اس میں شر ہی کیوں نہ ہو ۔وہ مرد کے ظلم کے زنجیروں میں بندی تھی ،مرد اس کو ایک مزے کی چیز سمجھ کر اپنی نفسیاتی خواہشات پوری کر کے پھینک دیتے تھے۔ حتیٰ کہ گوشت تک کھانے کی ان کواجازت نہیں تھی۔ اسپارٹ میں اگر دیکھا جائے ،وہاں مخلوق کا کوئی نہ کوئی وقار تو تھا لیکن عورت وہاں پر بھی ذلیل و خوارہو کر اپنی زندگی گزار رہی تھی، مردوں کو کئی شادیاں کرنے کی اجازت تھی اور عورتوں کو بھی بے حیائی کے کھلے میدان میں جانے کی اجازت تھی، غرض وہاں پہ کتّے اور خنزیر کا مقام تو تھا لیکن عورت کا کوئی مقام نہیںتھا ۔اہل ایران میں بھی عورت بے حیائی کی شکار تھی، اس کو بے تکلف شادیاں کرنے کی اجازت تھی اور وہ اس کو کوئی غلط کام نہیں سمجھتے تھے بلکہ وہ باعث اجر و ثواب قرار دیتے تھے ۔ مصریوں کا نظریہ بھی بالکل یہی تھا ۔

لیکن اللہ تعالی کا ہم پر بڑا شکر و احسان ہے کہ ہمارے لیے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، جو ہمارے لیے باعث ِرحمت اور باعث ِ نجات بن کر آئے، جس کی وجہ سے عورت ذات کو دنیا میں اپنی زندگی گزارنے کا حق ملا ،عورت کو غلامی کی زندگی سے نجات مل کر اس کو گھر کی ملکہ بنایا گیا ۔بچوں کی تربیت پر جنت کی بشارت دی گئی اور ماں کے قدموں تلے جنت کو بسایا گیا۔ لہٰذا دین اسلام میں عورت کے متعلق کوئی بھی اس قسم کا نظریہ نہیں ہے جس سے عورت کو ذلیل و رسوا کیا جائے کیونکہ عورت ہی سے زندگی کا وجود ہے۔وہ تو عورت ہی ہے جو ہمارے نسلوں کی بنیاد ہے ،عورت وہ تکلیف برداشت کرتی ہے ،جو کوئی مرد برداشت نہیں کر سکتا ۔راتوں کو بچے کے لیے جاگتی رہتی ہے، بچے کی نجاست کو صاف کرتی، لہٰذا جو نجاست دور کرے، ہم اس کو کیسے نجس کا ڈھیر سمجھیں گے۔ جو ماں اپنے بچوں کو چلنا سکھاتی ہے، ہم کیسے اُس کازمین پر چلنے کا حق چھین لے، جو ماں اپنے بچے کو بولنا سکھاتی ہے، اس کو بولنے سے کیسے محروم رکھ سکتےہیں ۔جو عورت اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کرتی ہیں اس کو ہم کیسے حقارت کی نظروں سے دیکھ سکتے ہیں۔ عورت کو گھر کا تاج کہا گیا اور گھر میں انہیں سے سکون و راحت ہے، اس کو ہم فتنوں اور فساد کی بنیاد نہیں کہہ سکتے ۔جو عورت اپنے بچوں کی تربیت کر کے ایک اچھا انسان بنا دیتی ہے ،اس کو ہم تمام خیر سے عاری اور بُرائیوں کی جڑ نہیں کہہ سکتے،ایسا اگر کوئی کہے بھی تو بد ذات مرد ہے۔

ہمارا دین کہتا ہے کہ سماج میںجتنی عزت مرد کو حاصل ہے، اتنا ہی عورت کو بھی حاصل ہے ۔اسلام مکمل نظام حیات ہے۔ جس نے عورت کو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کے حقوق بھی منتخب کیے ۔ عورت کو کسی نے بھی آج تک اتنی عزت نہیں دی، جتنی اسلام نے بخش دی ہے ۔اس سے قبل اس کو جنس کی منڈیوں میں لا کر اس کی قیمت بڑھائی جاتی تھی اور اس کو خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ سمجھا گیا تھا ۔اسلام نے ان تمام بُرے نظریات کی تردید کر کے عورت کو ایسے مقام پر لا کھڑا کیا کہ جنت کو اس کی قدموں تلے رکھا گیا ۔ان کو عزت کے ساتھ ساتھ حقِ کی وراثت بھی ادا کر دیا گیااور جتنی اہمیت مردوں کی تعلیمی معاملات میں رکھا گیا اتنا ہی عورتوں کو بھی علم حاصل کرنےکاحق دے دیا۔کسی کی مجال نہیں کہ وہ ظالم بن کے اس کے حقوق پامال کرے کیونکہ عورت ہی وہ ہستی ہے، جس کےبطن سے بڑے بڑے لیڈران ،بڑے بڑے امانت دار ،تاجر، غازی اور عظیم الشان ہستیوں اور پیغمبران نے جنم لیا ہے ۔

ادیان عالم نے عورت کو عورت سمجھا ہی نہیں ۔لیکن اسلام نے نسوانیت کا اتنا لحاظ کیا اور اس کو اتنی بلندی عطا کی کہ اگر ہم پوری زندگی اسلام کی خدمت گزاری کرنے بیٹھے تو بھی حق ادائی نہیں ہو سکتی ۔دورِ جہالت میں نہ صرف جاہل اور گوار لوگ عورتوں کے بارے میںبُرا تصور رکھتے تھےبلکہ اس وقت بڑے بڑے دانشمند اور سمجھدار لوگوں کا بھی اس کے بارے میں غلط تصور تھا، وہ کہتے تھے کہ عورت انسان ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں روح ہے، وہ جاہل یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ یہ کوئی الگ صنف نہیں ہے بلکہ مرد کا ہی ایک حصہ ہے ۔اسلام نے عورت کو چراغ محفل سے نکال کر گھر کا چراغ بنا دیااور اس کو آزاد رکھاتا کہ وہ بھی سماج میں حصہ لے سکیں لیکن شریعت کے حدود کے بمطابق۔ مرد و عورت کے حقوق اگر برابر رکھے گئے لیکن ان کا دائرے کار الگ الگ ہے ۔مرد کو تخت پہ بیٹھ کر حکومت کا ذمہ دار بنایا گیا اور یہ کام عورت نہیں کر سکتی ۔عورت کو یہ کام سونپ دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کے گھر کی محافظ بن کر اس کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرے ۔ عورت نصف انسانیت ہے ،اس کے بغیر انسانیت کا کوئی وجود نہیں ۔الغرض اسلام ایک ایسا دین ہے جس نے عورت کو حقوق کا جامہ پہنا کر اس کو اس کائنات میں حسین اور پروقار بنا دیا اور ہم کبھی بھی اسلام کے اس احسان کو فراموش نہیںکر سکتے ہیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں امت وسط میں مبعوث کیا، جس کی بدولت ہمیں یہ منصب ملا ۔اللہ تعالی ہر عورت کی عزت محفوظ رکھیں۔آمین
پتہ۔ آونیرہ شوپیان ،کشمیر
ای میل۔[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔