ڈاکٹر آزاد احمد شاہ
کشمیر کی سردیاں اپنی شدت اور اثرات کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔ جب دسمبر کے مہینے میں برف باری شروع ہوتی ہے تو پوری وادی ایک سفید چادر اوڑھ لیتی ہے، جس کے مناظر دیکھنے والے کو مسحور کر دیتے ہیں۔ لیکن اس حسین منظر کے پیچھے ایک حقیقت چھپی ہوتی ہے، ایک تلخ حقیقت جو سردی کی شدت کو برداشت کرنے والے انسانوں کی بے بسی کی کہانی سناتی ہے۔ برف کی یہ سفید چادر نہ صرف زمین کو بلکہ غریب اور بے سہارا لوگوں کی زندگی کو بھی منجمد کر دیتی ہے۔
کشمیر میں درجہ حرارت اکثر منفی 10 ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے۔ جھیلیں برف کی موٹی تہہ میں تبدیل ہو جاتی ہیں، پہاڑوں پر برف کا وزن بڑھ جاتا ہے اور یخ بستہ ہوائیں جسموں کو جھلسا دیتی ہیں۔ ایسے میں زندگی اپنی رفتار کھو دیتی ہے۔ لوگ گھروں میں قید ہو جاتے ہیں، راستے بند ہو جاتے ہیں، اور روزمرہ کی سرگرمیاں معطل ہو جاتی ہیں۔ سردیوں کی یہ سختیاں ان لوگوں کے لیے ناقابلِ برداشت بن جاتی ہیں جو پہلے ہی غربت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔
ایسے میں غریب، نادار، یتیم اور بے سہارا افراد کی حالت کا تصور بھی دل کو ہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ ان لوگوں کے پاس نہ مناسب رہائش ہوتی ہے، نہ سردی سے بچنے کے لیے گرم کپڑے اور نہ ہی وہ وسائل جو انہیں ان سخت حالات میں سہارا دے سکیں۔ چھوٹے بچے، جو سردی کے اثرات کو سمجھنے سے قاصر ہیں، کانپتے جسموں کے ساتھ کھلے آسمان کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ بوڑھے افراد، جن کی ہڈیاں پہلے ہی عمر کی زیادتی کی وجہ سے کمزور ہیں، یخ بستہ راتوں میں زندگی کی جنگ لڑتے ہیں۔ یتیم بچے، جن کے پاس والدین کا سایہ نہیں، ان سخت سردیوں میں مزید بے بسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ لمحہ ہے جب ہماری انسانیت ہم سے سوال کرتی ہے کہ کیا ہم ان لوگوں کی مدد کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ان کے دکھ درد کو کم کرنے کے لیے آگے آ سکتے ہیں؟ یہ موسم نہ صرف ہماری سماجی بلکہ ہماری دینی ذمہ داریوں کا بھی امتحان ہے۔ اسلام ہمیں غریبوں، یتیموںاور محتاجوں کی مدد کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ قرآنِ مجید اور احادیث مبارکہ میں بارہا اس بات کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا ایمان کی علامت ہے۔
مدد کے لیے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے گھروں میں موجود غیر ضروری گرم کپڑے، جیکٹس، کمبل اور جوتے ان لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جنہیں اس کی اشد ضرورت ہے۔ مساجد، اسکولوں اور سماجی تنظیموں کے ذریعے ایسے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جن میں لوگوں کو ضرورت مندوں کے لیے عطیات دینے کی ترغیب دی جائے۔ بے سہارا افراد کے لیے عارضی رہائش کا انتظام کیا جا سکتا ہے، جہاں وہ برفانی ہواؤں سے محفوظ رہ سکیں۔
اس کے علاوہ خوراک کا انتظام بھی ضروری ہے۔ سردی کے موسم میں گرم کھانے اور مشروبات جسم کو توانائی اور گرمی فراہم کرتے ہیں۔ ہم اپنی استطاعت کے مطابق غریب خاندانوں کو خوراک کے پیکٹس دے سکتے ہیں یا ایسے مقامات پر کھانے کی تقسیم کا انتظام کر سکتے ہیں جہاں یہ لوگ جمع ہوں۔ یہ عمل نہ صرف ان کے جسمانی سکون کا ذریعہ بنے گا بلکہ ان کے دلوں میں یہ احساس بھی پیدا کرے گا کہ وہ اس معاشرے کے بے کار یا فراموش کردہ افراد نہیں ہیں۔
جب ہم کسی یتیم بچے کو گرم کپڑے دیتے ہیں یا کسی غریب خاندان کو سردی سے بچنے کے لیے کمبل فراہم کرتے ہیں، تو ان کے چہروں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں تشکر کے آنسو ہمیں سکون اور خوشی کا احساس دلاتے ہیں۔ یہ وہ لمحات ہیں جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ حقیقی خوشی دوسروں کی مدد کرنے میں ہے۔ ہمارا دین بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ مال و دولت اللہ کی امانت ہے، اور اس کا بہترین استعمال ضرورت مندوں کی مدد میں ہے۔
یہ سب کچھ انفرادی سطح پر بھی کیا جا سکتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی۔ ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اس کارِ خیر میں شامل کرنا چاہیے۔ اسکولوں، کالجوں، اور مساجد میں ایسی مہمات کا آغاز کیا جا سکتا ہے جن کے ذریعے لوگوں کو ضرورت مندوں کی مدد کے لیے تیار کیا جائے۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کے ساتھ تعاون کرکے ایسے منصوبے شروع کرے جن میں غریبوں کو گرم کپڑے، رہائش اور خوراک فراہم کی جا سکے۔
کشمیر کی سردی کی شدت ان لوگوں کے لیے ایک مسلسل آزمائش ہے جو وسائل سے محروم ہیں۔ ان کی مدد کرنا نہ صرف ان کی زندگی کو آسان بناتا ہے بلکہ ہمیں اپنی انسانیت اور ایمان کے قریب بھی لاتا ہے۔ اگر ہم اپنے دلوں میں ان لوگوں کے لیے محبت اور ہمدردی کا جذبہ پیدا کریں اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کریں تو یہ دنیا ایک بہتر جگہ بن سکتی ہے۔
آئیں، اس سردی میں غریبوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے لیے امید کا چراغ جلائیں۔ ان کی دعائیں نہ صرف ہمیں دنیا میں سکون دیں گی بلکہ آخرت میں بھی ہماری کامیابی کا ذریعہ بنیں گی۔ یاد رکھیں، آپ کا ایک چھوٹا سا عمل کسی کے لیے زندگی کا سہارا بن سکتا ہے۔
(مضمون نگار ایک معروف اسلامی اسکالر، ماہر تعلیم و نفسیات، روحانی معالج ایک سماجی کارکن ہیں)