وہ بھی کیا زمانہ تھا جب وادیٔ کشمیر کی ہر شےخوبصورت تھی ۔ شہر، قصبے، گاؤں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے ،پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ حسین تھا ۔ماحول صاف ستھرا تھااورفضافرحت بخش تھی، جس کے نتیجے میںیہاں کا انسان غربت کے باوجود خوش رہتا تھا۔لیکن اب زمانہ اتنا بدل گیا ہے کہ ہر جگہ ،ہر مقام ،ہر سڑک، ہر گلی اور ہر فٹ پات گندگی اور کوڑے کچرے سے اَٹا پٹا رہتا ہے۔ زیادہ تر مصروف بازاروں کے اُن فُٹ پاتھوں ،جو پیدل چلنے والے عام لوگوں اور مسافروںکی سہولت کے لئے مخصوص رکھے گئے تھے، پر اب دکانداروںاورچھاپڑی فروشوں کا قبضہ جما رہتا ہے۔
آج سرینگر کی بیشتر مصروف سڑکوں سے منسلک فٹ پاتھوں پر قابض ان لوگوں کا قبضہ اس قدر مضبوط ہے کہ متعلقہ محکمے اُن کے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں۔نتیجتاًان فٹ پاتھوں پر کچرے کے ڈھیر لگے رہتے ہیں اور پیدل چلنے والے لوگوں کو مجبوراًموٹر گاڑیوں کی آمد جامد سے مصروف سڑکوں پر چلنا پڑتا ہے۔ چنانچہ ان دکانداروں، چھاپڑی فروشوں،ریڑی والوں کی وجہ سے پہلے ہی شہر کی بیشتر سڑکیں سمٹ کر رہ گئی ہیں، جس کے باعث ٹریفک جام رو ز کا معمول بن گیا ہے، لوگوں کو گھنٹوںاس صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بجائے اس کے کہ انتظامیہ کوئی کارروائی کرے، اُلٹا شہریوں ہی کو الزام بے گناہی میں ہر طرح کا اذیت اٹھانا پڑتا ہےاور بعض اوقات حادثہ کا شکار ہونا پڑتا ہے۔اس معاملے میں پولیس اور محکمہ بلدیہ کن مصلحتوں یا مفادات کے تحت خاموش ہیں ،یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے جبکہ عوامی حلقوں کا کہنا ہےکہ ان دونوں محکموں کے فیلڈ اہلکارکی چاندی ہورہی ہے اوروہ ان ناجائز تجاوزات کھڑے کرنے والوں سے اپنا پورا حصہ وصول کر رہے ہیں۔ بغور جائزہ لیا جائے توکوئی جگہ ایسی نہیں، جہاں کچرے کا ڈھیر نہ ہوں ، اسپتال ، اسکول، کالج، رہائشی پلازہ غرض ہر جگہ کچرے کے ڈھیر پوری آب وتاب کے ساتھ چمکتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جہاں سڑکوں کی صفائی بلا ناغہ ہو رہی ہے، وہاں بھی گندگی کے ڈھیرلگے رہتے ہیں۔ جابجاکوڑے کے ڈھیروں ، اُبلتے گٹروں اور بند نالوں میں ہر طرف پلاسٹک کی تھیلے نظر آرہے ہیں۔
معاشرے میں پھلتی پھولتی جہالت کے پیش نظر یہ توقع رکھنا کہ شہری اور دکاندار خود سے کچھ احساس کرتے ہوئے ان کا استعمال بند یا کم کریں، سو فیصد حماقت ہے اور نہ ہی اس سلسلے میںکسی قانون سے کچھ ہونے والا ہے، کیونکہ ہمارے یہاں قانون بنائے ہی توڑنے کیلئے جاتے ہیں۔ یہاں قانون ہے نہ انتظامیہ، محکمہ کی راشی افسروں کو ان کے دفتروںمیں’’حصہ‘‘پہنچ جاتا ہے، ان کے نزدیک ان کی ذمہ داری حصہ وصول کرنے کے علاوہ کچھ نہیں۔ انتظامیہ اور محکمہ بلدیہ کی حرام خوری کی وجہ سے یہاں کی فٹ پاتھوں پر قبضے اور کچرے کے انبار بڑی شہرت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ بے بس عوام اس صورتحال پر فکر مند ہیں، شہر کی سڑکوں سے بھی زیادہ گندگی یہاں کی ان گنجان آباد بستیوںمیں ہے، جہاں زیادہ تر غریب عوام رہتے ہیں۔ یہاں کی صورتحال اس وجہ سے بھی انتہائی خطرناک ہے کہ کچرے اور گندگی کی وجہ سے ان آبادیوں میں بڑی تیزی کے ساتھ بیماریاں پھیل جاتی ہیں ۔ کوئی بھی شہر ترقی کرے تو خوشی کی بات ہے لیکن غم یہ ہے کہ تیزی سے ترقی کرتے شہر کو نااہل حکمرانوں سے تباہ وبرباد کردیا ہے۔
شہر کی گلیوں، محلوںاور پارکوںمیں پڑے کچرے کو اٹھانے والا کوئی محکمہ ایسا نظر نہیں آتا جو پورے دیانتداری سے لوگوں کو گندگی سے نجات دلا سکے۔ فٹ پاتھ مافیہ اور کچرے کے ڈھیروں سے نجات کا ایک ہی طریقہ سمجھ میں آتا ہے کہ بلدیہ جیسے ’’مفلوج‘‘ادارے کے رحم وکرم پر رہنے کے بجائے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت محلہ محلہ کمیٹیاں بنائیںاور ان چھوٹی چھوٹی کمیٹیوں کے ذریعہ شہر بھر سے گندگی کا خاتمہ کریں، حکومت سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ کچرا اُٹھانے والے نظام کو ٹھوس بنیادوں پر موثر بنائےاورایسے قوانین نافذ کریں،جن کی خلاف ورزی کی صورت میں غیر قانونی کام کرنے والے یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اگر کوئی غیر قانونی کام کیا، تو یقیناً سزا سے بچ نہیں پائوں گا۔