بلال فرقانی
سرینگر// وادی میںبیٹے اور بیٹیوں کا قومی دن کئی بزرگ والدین کیلئے کرب اور تنہائی کی تلخ یادیں تازہ کر دیتا ہے۔ اس دن کا مقصد بچوں کے والدین کے ساتھ جذباتی تعلق کو مضبوط بنانا ہے، وہیں کشمیر میں ہزاروں والدین اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی جدائی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ روایتی طور پر کشمیری گھرانوں میں بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کو خدا کی سب سے بڑی نعمت سمجھا جاتا ہے، لیکن بدلتے ہوئے حالات نے ان کی زندگیوں میں نئے چیلنج بھی پیدا کر دئیے ہیں۔یہ دن والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے، ان کی حوصلہ افزائی کرنے اور ان کی زندگی کے اہداف میں رہنمائی فراہم کرنے کا پیغام دیتا ہے۔ کشمیر جیسے خطے میں، جہاں اکثر نوجوان غیر یقینی حالات اور معاشرتی دباؤ کا سامنا کرتے ہیں، اس طرح کے مواقع رشتوں کو مضبوط بنانے اور نئی نسل کو امید اور مقصد فراہم کرنے کیلئے بے حد ضروری ہیں۔کشمیر کے وہ والدین خاص طور پر یاد آتے ہیں جن کے بیٹے اور بیٹیاں روزگار یا تعلیم کے سلسلے میں دیارِ غیر میں مقیم ہیں۔ برسوں سے ماں باپ کی سب سے بڑی آس یہی رہی ہے کہ بچے سال میں چند دن کیلئے ہی سہی، گھر کی دہلیز پر آ کر ان کے ساتھ بیٹھیں، چائے کی پیالی شیئر کریں اور پرانے قصے سنیں۔ مسکین باغ خانیار کے شوکت احمد بیگ ،جس کا اکلوتا بیٹا بیرون ملک روزگار کیلئے مقیم ہے، کا کہنا ہے’’ آج کے دور میں یہ ملاقاتیں زیادہ تر موبائل فون کی اسکرین تک محدود ہو گئی ہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے ایک طرف ویڈیو کال پر ہنستے چہرے اور پیار بھرے جملے ہوتے ہیں، تو دوسری طرف خالی کمروں کی خاموشی اور والدین کی آنکھوں میں چھپی تنہائی۔‘‘ کشمیر کے ان گھروں میں، جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، اب فون کی گھنٹی اور سکرین کی روشنی ہی رابطے کا واحد وسیلہ بن چکی ہے۔ سرینگر کے ایک تجارتی کنبے کے والدین نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم کیلئے دہائیوں پہلے پونے اور بنگلور بھیجا۔ بڑے بیٹے نے وہیں شادی کر لی، چھوٹا بیٹا دبئی جا بسا، اور بیٹی کی شادی سعودی عرب میں ہوئی۔ والدین کا کہنا ہے، ’’ہمارے بچوں کے بچے کب بڑے ہوئے ،نہ ہمیں احساس ہوا ،نہ پتہ چلا۔‘‘ صنعت نگر میں رہائشی ایک70 سالہ سابق اعلیٰ افسر نے بتایا کہ اس کا اکلوتا بیٹا ایک یورپی ملک میں نوکری کرتا ہے اور سال میں صرف ایک بار ملنے آتا ہے۔ ان کی اہلیہ جذباتی انداز میں کہتی ہیں،’’شاید ہمارے بیٹے کو اس دن چین ملے گا جب ہم سپردِ لحد ہوں گے۔کشمیر میں گزشتہ کئی برسوں کے حالات، تنازعات اور معاشی مشکلات نے خاندانی ڈھانچے کو متاثر کیا ہے۔ ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ جہاں تعلیم اور روزگار کے مواقع نے نوجوان نسل کو نئی سمت دی ہے، وہیں مغربی ثقافت اور ڈیجیٹل دنیا کی یلغار نے والدین اور بچوں کے درمیان وقت گزارنے اور باہمی بات چیت کو محدود کر دیا ہے۔ اس دن کے موقع پر مختلف تقریبات میں اس بات پر زور دیا گیا کہ والدین نہ صرف اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دیں بلکہ ان کے ساتھ جذباتی تعلق قائم رکھنے کیلئے بھی وقت نکالیں۔‘‘معروف ماہر سماجیات پروفیسر پیرزادہ محمد امین کا کہنا ہے، ’’ہم نے مغرب کی اندھی تقلید کی مگر اپنی روایت اور تہذیب کو فراموش کر چکے ہیں۔ بچوں کو تہذیب و اخلاق کی تعلیم دی جائے تاکہ وہ والدین اور بزرگوں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نہ بھولیں۔‘‘پروفیسر امین کا مزید کہنا ہے کہ وادی کی ثقافت میں اولڈ ایج ہومز کا کوئی تصور نہیں اور مساجد میں ایسے پروگرام ہونے چاہئیں جہاں بزرگوں کو اپنی تنہائی بھلانے کا موقع ملے۔نیشنل سن اینڈ ڈاٹر ڈے پر وادی کے کئی والدین کی ایک ہی خواہش ہے کہ ان کے بیٹے بیٹیاں صرف فون پر نہیں بلکہ گھر آ کر ان کے ساتھ وقت گزاریں۔