عظمیٰ نیوز سروس
لندن //کمبوڈیا کے سابق وزیر اعظم سے فون پر کی گئی بات لیک ہونے کے بعد تھائی لینڈ کی وزیر اعظم پیتونگاترن شیناوترا سے مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا جب کہ حکومت سے اتحادی پارٹیوں نے بھی علیحدگی اختیار کرلی۔ تھائی لینڈ کی حکومت حکومت 19 جون کو نازک موڑ پر پہنچ گئی، جب اس ایک اہم اتحادی جماعت نے اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی اور اب وزیر اعظم سے عہدہ سنبھالنے کے محض 10 ماہ بعد مستعفی ہونے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے۔پیتونگاترن شیناوترا اگست 2024 میں وزیر اعظم بنی تھیں، ان کی حکومت کو معیشت کی سست روی اور کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی تنازع جیسے بحرانوں کا سامنا ہے، جنہوں نے ممکنہ فوجی جھڑپوں کا خدشہ بھی بڑھا دیا۔کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی تنازع کے ممکنہ حل کی فون لیک گفتگو وائرل ہونے کے بعد تھائی حکومت کے اتحاد میں دوسری بڑی جماعت بت اتحاد چھوڑنے کا اعلان کیا۔جماعت کے مطابق وزیر اعظم اور کمبوڈیا کے سابق رہنما کے درمیان فون کال کے لیک ہونے کے بعد تھائی لینڈ کی خودمختاری، سالمیت اور فوج کو نقصان پہنچا ہے۔مذکورہ جماعت کی جانب سے حکومت سے علیحدگی اختیار کیے جانے کے بعد اتحاد میں شامل دوسری جماعتوں نے بھی حکومت سے الگ ہونے پر غور شروع کردیا جب کہ پیتونگاترن شیناوترا سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔اتحادی جماعت کے الگ ہونے پر تاحال وزیر اعظم نے کوئی تبصرہ نہیں کیا جب کہ ممکنہ مظاہروں کے پیش نظر اہم مقامات پر پولیس کی بھاری نفری تعینات کردی گئی ہے۔چند دن قبل 15 جون کی لیک شدہ فون کال میں تھائی وزیر اعظم پڑوسی ملک کمبوڈیا کے سابق وزیر اعظم سے سرحدی تنازع پر پرامن حل کے لیے زور دیتی سنائی دیتی ہیں۔لیک کال میں وہ کمبوڈیا کے رہنما سے درخواست کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ وہ تھائی لینڈ کے ’’دوسرے فریق‘‘، بشمول ایک تھائی فوجی جنرل کی باتوں پر دھیان نہ دیں، کیونکہ باقی تمام فریق خود کو اہم دکھانا چاہتے ہیں‘‘۔لیک کے بعد پیتونگاترن شیناوترا نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کی گفتگو محض مذاکراتی حکمت عملی تھی اور فوج سے ان کے تعلقات میں کوئی مسئلہ نہیں۔علاوہ ازیں وزیر اعظم نے اعلیٰ سیکیورٹی حکام کے ساتھ کمبوڈیا کے ساتھ جاری بحران پر غور کے لیے اہم اجلاس کی صدارت بھی کی، بعد ازاں وہ دفاعی وزیر، آرمی چیف اور مسلح افواج کے کمانڈر کے ہمراہ میڈیا کے سامنے آئیں اور عوام سے معذرت کرتے ہوئے اتحاد کی اپیل کی۔