ریاست کے طول وعرض میں ہزاروں کنا ل اراضی سیکورٹی فورسز کے مختلف اداروںکے قبضہ میں ہے، جس میں سے اچھا خاصہ حصہ ایسی زمین پر مشتمل ہے، جو زیر کاشت تھی اور کسان طبقہ کےلئے حصول روزگار کا سبب تھی، جبکہ ایسی اراضی میں زراعت اور ہارٹیکلچر محکموں کی اراضی بھی شامل ہے۔ شہر سرینگر کے زکورہ علاقہ میں بھی ہارٹیکلچر پرڈیوس مارکیٹنگ کارپوریشن کی ساٹھ کنال اراضی پر مشتمل ایک باغ کےحوالے سے حکومت نے سی آر پی ایف کو یہ اراضی خال کرنے کا نوٹس دیا ہے۔ مذکورہ اراضی1990، جب ریاست میں عسکری تحریک شروع ہوئی تھی،میں فوج نے اپنی تحویل میںلیکر وہاں ایک فوجی کیمپ قائم کیا تھا جبکہ 1994میں فوج کی طرف سے اسےخالی کرنے کے بعد سی آر پی ایف نے متعدد عمارات سمیت اس رقبے کو تحویل میں لیکر اپنا کیمپ قائم کیا تھا، جب سے صورتحال یہی بنی ہوئی ہے ۔ اب جبکہ نیم فوجی ادارہ اس پر کچھ نئی تعمیرات کھڑی کرنے کےلئے حکومت سے اجازت کی طالب ہے تو محکمہ نے انہیں یہ اراضی خالی کرنے کےلئے کہا ہے۔ قابل ذکر بات ہے کہ گزشتہ 28برسوںکے دوران شہر کی وسعتیں اس قدر پھیل گئی ہیں کہ اس علاقہ کے گردو پیش میں متعدد بستیوں کا قیام عمل میں آیا ہے ، لہٰذا آبادی کے بیچو ں بیچ اتنے بڑے فورسز کیمپ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جبکہ متعلقہ محکمہ کو بھی برابر مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ ریاست بھر میں اس نوعیت کے بیسویوں معاملات ہیں، جہاں سرکاری یا لوگوں کی وراثتی اراضی کو قبضے میں لیا گیا ہے اور ان معاملات کا ہمدردانہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کہیں پر فورسز اداروں نے لوگوں کی زمینیں تو حاصل کرلی ہیں مگر انہیں معاوضہ نہیں دیا گیا ہے،کہیں آبادیوں کو بے دخل تو کیاگیا ہے لیکن انکی باز آباد کاری نہیں ہوئی۔ ایسے ایک معاملے میں گزشتہ دنوں راجوری کے پلمہ علاقے کے لوگوںنے فوج کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا اور انہوںنے اس سلسلے میں ایک خط لکھ کر وزیر اعظم ، وزیر دفاع ، فوجی سربراہ ، وزیر اعلیٰ ، گورنر اور دیگر حکام سے مداخلت طلب کی ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ راجوری ضلع کے پلمہ فاروالا کے 29کنبے علاقے میں قائم کئے گئے فوجی کیمپ کی وجہ سے بے دخل ہونے کے بعد مشکلات بھری زندگی بسر کررہے ہیں ۔مقامی سطح پر تمام تر امیدیں دم توڑ جانے کے بعد ان 29کنبوں نے وزیر اعظم کے دفتر ، وزارت دفاع اور فوجی سربراہ سے مددکیلئے درخواست کی ہے اور اس بات پر تحقیقات کا مطالبہ کیاہے کہ وراثتی اراضی پر فوجی کیمپ کیسے قائم کیاگیاہے ۔ 293کنال وراثتی اراضی پر قائم کئے گئے اس فوجی کیمپ سےلوگوں کے روز گا رپرمنفی اثرات پڑے ہیں جبکہ سماجی اور اقتصادی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ گھروںسے بے دخل ہوکر جہاںان کے بچوں کی پڑھائی متاثر ہورہی ہے وہیں ان کو شادی بیاہ میں بھی مسائل و مشکلات کاسامناہے ۔ یہ کیمپ لوگوں کی اراضی پر 1998-99میںاس وقت عارضی طور پر قائم کیاگیا جب علاقہ میں میں ملی ٹینسی عروج پر تھی تاہم علاقہ کے حالات میں بہتری آنے کے بعد اگر چہ اس کے انخلاء کا جواز بنتا تھالیکن2000-2001میں اندرونی سلامتی کے نام پر فوجی حکام نے سیول انتظامیہ کی مدد سے اراضی کے مالکان کو زبردستی گھروںسے بے دخل کرکے زمین اپنی تحویل میں لے لی اور یہ وعدہ دیاکہ ان کی مکمل بازآبادکاری کے ساتھ ساتھ مکانات اور زمین کا ماہانہ بنیاد پر معاوضہ دیاجائے گا اور ہر ایک خاندان سے دو افراد کو ملازمت بھی فراہم کی جائے گی ۔آج کئی سال گزرنے کے بعد نہ ہی مکمل بازآبادکاری ہوئی ،نہ ملازمت ملی اور نہ ہی مناسب اور بروقت معاوضے کی ادائیگی ہوتی ہے بلکہ اس کے برعکس اس اراضی پر فوج نے پختہ ڈھانچے تعمیر کرلئے ہیں جس سے زمین و جائیداد تباہ ہوکر رہ گئی ہے ۔اب یہاں اس 293کنال وراثتی اراضی پرایک فوجی یونٹ کا صدر مقام قائم ہے اورمتاثرہ کنبوں کو اپنی ہی اراضی میں جانے کی اجازت نہیں ۔متاثرہ کنبوںنے سالہاسال صبر سے کام لیاتاہم ان کے صبر کا پیمانہ تب لبریز ہوا جب فوج نے اس علاقے کیلئے بچھائی جانے والی پائپ لائن پر اعتراض کیا جس پر لوگ سراپا احتجاج ہوئے اور اب وہ کیمپ کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے علاقوںسے فوجی تنصیبات اور کیمپ ہٹائے جائیں جہاں ان کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے بلکہ الٹا عوام کو ہی پریشانی کاسامناہے ۔ ریاستی حکومت بھی اس سلسلے میں بارہا اعلانات کرچکی ہے کہ وہ آبادیوں کے نزدیکی فوجی جماؤکو کم کرناچاہتی ہے لیکن اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ایسے علاقوںسے فوجی کیمپ منتقل کئے جائیں جہاں اب کسی بھی طور پر ان کی ضرورت نہیں رہی ہے۔