پہلی صدی عیسوی کے دوران برطانیہ میں رومی سلطنت کے فوجی مظالم کے ردعمل میں ایک جملہ کہا گیا:They make a desert and call it peaceیعنی ’’وہ ایک ریگستان بنا کے چھوڑتے ہیں، اور کہتے ہیں یہ لو امن قائم ہوگیا‘‘۔ تاریخ کے کئی مغالطوں میں ایک یہ بھی ہے کہ یہ جملہ رومیوں کے خلاف برسرپیکار بربر مزاحمتکاروں کے ایک رہنما نے کہا تھا۔لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ اُسوقت ایگریکولا رومی سرداری کے تحت برطانیہ کا گورنر تھا۔ ایگریکولا دراصل ایک دانشمند افسر طاسیطوس کا بہنوئی تھا۔طاسیطوس کی حیات اور کارناموں پر کافی تحقیق کرچکیں محقق اور مصنفہ میری بئیرڈ کہتی ہیں کہ جب رومی فوج برطانوی بستیوں کو روندتے ہوئے قیام امن کا مشن مکمل کررہی تھی تو طاسیطوس نے رومی انتظامیہ کے نیک دل افسر کیلگاسوس کو ایک تقریر لکھ کے دی جو انہوں نے نہایت جوش کے ساتھ ایک مجمع کے سامنے میں پڑھی۔ اسی تقریر میں آخر پر یہ جملہ تھا کہ ’’وہ ایک ریگستان بنا کے چھوڑتے ہیں، اور کہتے ہیں یہ لو امن آگیا۔‘‘
اس بہت ہی قدیم فلیش بیک سے واپس اکیسویں صدی کے کشمیر میں لوٹتے ہیں۔حالات میں قدرے ٹھہراؤ ہے، مسلح تصادموں اور فوجی کارروائیوں کا سلسلہ بھی نسبتاً مدھم سا ہے، پتھراؤ کے واقعات بھی کم ہوئے ہیں۔بی جے پی نے اس بظاہرخاموشی کا سہرا گورنر نریندر ناتھ ووہرا کے سر باندھ لیا ہے۔ حالات میں جس ’’بہتری‘‘ کا دعویٰ کیا جارہا ہے اسی سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فوج، نیم فوجی اداروں اور پولیس کی قیادت نے گزشتہ دنوں جنوبی کشمیر میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں اُن اسباب پر تبادلہ خیال کیا جو نوجوانوں کو تعلیم ترک کرکے مسلح ہونے پر آمادہ کرتے ہیں۔فورسز حکام نے اشارے دئے ہیں کہ اب جنوبی کشمیر میں فورسز کا ’’انسانی چہرہ‘‘ زیادہ نمایاں ہوگا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ نوجوانوں کو تعلیم ، کھیل کود اور ہنر آزمانے کے دیگر مواقع میسر رکھنے کے لئے فوج اور دوسری فورسز سرگرمی سے کام کریں گی۔
اس تازہ صورتحال سے تین اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اول تو یہ کہ کیا ’’انسانی چہرہ‘‘ نمایاں کرنے کا عزم بالواسطہ طور اس بات کا اعتراف ہے کہ فورسز نے عوام کو دبانے کے لئے ’’غیرانسانی‘‘ طریقہ کار اپنایا تھا۔ کیا گزشتہ دو سال کے دوران درجنوں رہائشی مکانوں کی مسماری پر اب ندامت ہورہی ہے، کیا راہ چلتے لڑکوں کے موبائل چھین کی ان کی تلاشی لینا اور انہیں پیٹنا بھی سابقہ چہرے کا مظہر تھا۔دوسرا سوال یہ ہے کہ نوجوانوں کے لئے روزگار، کھیل کود اور تفریح کے ذرایع مہیا کرنا کیا وہی قدیم بیانیہ ہے کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی وجہ مفلسی اور بے روزگاری ہے۔ حالانکہ سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کے ٹوٹر ہینڈل سے لے کر نیویارک ٹائمز کے ادارتی صفحات تک برہان، ذاکر اور دوسرے نوجوانوں کی آسودہ حالی پر کافی کچھ کہا اور لکھا گیا۔
چلئے مان لیتے ہیں کہ نوجوانوں کو کھیل کود اور تفریح کے وسائل فراہم کرنے سے حالات ٹھیک ہونگے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام قانونی اور آئینی طور پر کس کو کرنا ہے۔کیا یہ حکومت کا کام نہیں۔ سپورٹس کے لئے کم ازکم دو باقاعدہ محکمے ، ایک کونسل اور درجنوں ایسو سی ایشنز ہیں، جن کے مصارف کی خاطر بجٹ میں خاص رقومات مختص ہوتی ہیں۔جب باوردی فورسز یہ کام اپنے ذمے لے لے تو یہ بھی ایک طرح کی کونٹر انسرجنسی کاروائی معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی قیام امن کے نام پر ٹورازم، فن ، ادب اور کھیل کود کا کافی استحصال کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ، شعر گوئی، ڈرامہ نگاری، کھیل کود اور فن و ادب کی دوسری تمام سرگرمیوں کو عام لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ فن و ادب معاشرے میں خیالات کی تشہیر ہی نہیں تطہیر بھی کرتا ہے، لیکن جب یہ سبھی سرگرمیاں اس بنیاد پر کھڑی ہوں کہ ان کے ذریعہ ملی ٹینسی کا مقابلہ کرنا ہے تو جینی وین ادب بھی ضدانقلاب قرار پاتا ہے۔کسی بھی کانفلکٹ سچویشن میں فوج اور فورسز کا کام یہ نہیں کہ وہ نوجوانوں کے فطری طبائع پر بھی غالب ہوجائے، کھیل کود اور ہنر کے تمام مظاہروں پر فوج کا ہی ٹھپہ ہو۔ متنازعہ خطوں میں فوج یا پولیس کا کام ہوتا ہے کہ حکومت کے لئے ایک لیول پلینگ فیلڈ مہیا کرے۔ پھر جوقوتیں اقتدار میںہوں یہ اُن لوگوں کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ وہ کھیل کود اور فن و ادب کو ووٹ بٹورنے کے لئے استعمال کریں یا پھر جائز طریقوں سے نوجوانوں کے لئے سپیس پیدا کریں۔ ایسی سپیس جہاں نوجوان بلاجھجھک اپنے خیالات، اپنے ہنر، اپنے فن اور اپنے عزائم کا مظاہرہ کرسکیں۔
تیسرا سوال یہ کہ اگر متذکرہ دو سوالات کو نظرانداز کرکے یہ پوچھا جائے کہ جنوبی کشمیر میں فوج کا ’’ہیومن فیس ‘‘ کیا ہوگا، تو اس کا جواب کیا ہے؟ کیا بھارت کی فوجی قیادت میں بھی کوئی طاسیطوس ہے، جس نے قیام امن کے فولادی طریقوں پر اعتراض کیا ہے؟ کیا اب کشمیر کو ریگستان بننے سے روک دیا جائے گا؟ نوجوانوں کو سفید ٹوپیاں پہنا کر سیر پر لے جانے، دیہات میں میلاد النبیؐ کے موقع پر مشروبات کے خیمے لگانے، میڈیکل کیمپ منعقد کرنے اور ٹورنامنٹوں کا اہتمام کرنے سے فوج کا ’’ہیومن فیس بحال ‘‘ نہیں ہوگا۔ تاریخ سے واقف بھارتی جنرل جانتے ہیں کہ دو ہزار سال قبل نہ طاسیطوس رومی سلطنت کا باغی تھا اور نہ کیلگاسوس بربر باغیوں کا حامی۔ دونوں رومی سلطنت کے ’’انسانی چہرے‘‘ کو نمایاں کرنا چاہتے تھے۔ لیکن شروعات انہوں نے بھی اعتراف سے کی۔برطانوی دانشور میری بئیرڈ کا دعویٰ ہے کہ رومی سلطنت کے مظالم کے خلاف جب بھی دانشورانہ مزاحمت ہوئی تو اس کی شروعات رومی انتظامیہ کے اندر سے ہوئی نہ کہ باہر سے۔
فورسز کا انسانی چہرہ اگر کشمیریوں کو دکھانا ہے تو بھارت کی سیاسی یا فوجی قیادت کے اندر موجود طاسیطوس اور کیلگاسوس کو بولنا پڑے گا۔ پھر اس ’’ریگستان‘‘ کے ایک ایک ذرے کی آوا ز سنی جائے، ذرے ذرے میں المیوں، سسکیوں اور رِستے زخموں کی طویل داستانیں ہیں۔
قیام امن کی شروعات ’’ریگستان‘‘ کے وجود کو ماننے سے ہوتی ہے۔ پھر اس ’’ریگستان‘‘ میں پھل دار درخت اُگانے کے لئے حقیقت کا بیج بونا پڑتا ہے اور درخت کو انصاف کے پانی سے سیراب کرنا پڑتا ہے۔یہ کام ریگستان بنا کر چھوڑنے اور اسے امن کا نام دینے سے نہیں ہوتا۔
……………………….
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)