سرینگر//مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یٰسین ملک نے کُنن پوشہ پورہ سانحہ کے 27سال مکمل ہونے کے موقعے پر کہا ہے کہ یہ واقعہ بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا ایک زندہ جاوید ثبوت ہے اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر میں افواج کتنے سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل سے اپیل کی ہے کہ وہ کُنن پوشہ پورہ اور اس نوعیت کے دوسرے واقعات کی جنگی جرائم ٹریبونل کے ذریعے سے اسی طرح تحقیقات کرائیں، جس طرح اس عالمی ادارے نے بوسنیا میں کرائی تھی اور جنگی جرائم میں ملوث لوگوں کو عدالتِ انصاف تک لایا گیا تھا۔ مشترکہ قیادت نے کہا کہ فوج کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کو بین الاقوامی سطح پر ایک جنگی جرم اور طریقہ اذیت قرار دیا گیا ہے اور جموں کشمیر میں پچھلے 25سال سے ریپ کو باضابطہ ایک جنگی ہتھیارکے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ مزاحمتی قائدین نے کہا کہ جموں کشمیر میں افسپا اور ڈسٹربڈ ائیریا ایکٹ کی صورت میں فوج کو قتل اور ریپ کرنے کی کھلی لائسنس اور آزادی حاصل ہے، لہٰذا آج تک ایک بھی واقعے میں کسی جنگی مجرم کو کسی سول عدالت میں لایا جاسکا ہے اور نہ کسی کو کوئی سزا دی جاسکی ہے۔ عوامی دباؤ کے پیشِ نظر فوج نے کبھی کسی کیس کی از خود تحقیقات کرنے کا وعدہ بھی کیا، البتہ آگے چل کر فائل کو یہ کہہ کر بند کردیا گیا کہ اس سلسلے میں کافی شہادت دستیاب نہیں ہوسکی ہے اور کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ایک سابق وزیر داخلہ ایل کے ایڈوانی کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ خطرناک جرائم میں ملوث فوجی اہلکاروں کو کسی قسم کی سزا نہیں دی جاسکتی ، کیونکہ اسطرح سے جموں کشمیر میں ڈیوٹی دے رہے فوج کا مورال متاثر ہوجائے گا اور وہ مناسب طریقے سے ملک کی حفاظت نہیں کرسکیں گے۔ مشترکہ قیادت نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کُنن پوشہ پورہ میں جو انسانیت سوز اور شرم ناک واقع 1991میں پیش آیا تھا، 27سال گزرنے کے بعد بھی کوئی مقدمہ درج کرایا گیا ہے اور نہ کسی ملوث فوجی افسر یا اہلکار کو حراست میں لیا گیا ہے۔