سرینگر//اے آئی پی سربراہ اور ایم ایل اے لنگیٹ انجینئر رشید نے فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیوں کی طرف سے کشمیری نوجوانوں کے ساتھ انسانیت سوز مظالم ڈھانے کے ویڈیوز کے منظر عام پر آنے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس چیز کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ ویڈیوز کس طرح منظر عام پر آگئے ۔ اپنے بیان میں انجینئر رشید نے کہا ’ جتنے بھی انسانیت سوز ویڈیوز منظر عام پر آ رہے ہیں وہ سارے یا تو نوجوانوں کو پکڑنے کے بعد کیمپوں کے اندر یا پھر فوج کی گاڑیوں کے اندر بنائے گئے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی عام شہری کیلئے اُس وقت وہاں موجود ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جب فوج اور دیگر سیکورٹی ایجنسیاں ان نوجوانوں کو اذیتیں دے دے کر کبھی پاکستان ، کبھی خود اور کبھی کشمیریو ں کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے کیلئے بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بنا رہی تھی ۔ در اصل سیکورٹی ایجنسیاں منصوبہ بند پالیسی کے تحت ان ویڈیوز کو انتہائی اعلیٰ سطح کے حکام سے پوری اجازت لیکر سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلا رہی ہےں تاکہ کشمیریوں کے حوصولوں کو پست کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں صاف صاف بتا دیا جائے کہ ہندوستانی فوج اُنہیں رام کرنے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور ایسا کرنے سے روکنا نہ کسی قانون کے بس میں ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی طاقت ایسا کرنے سے منع کر سکتی ہے ۔ نیز ایک دوسرے کی نظروں میں ان ویڈیوز کے ذریعے کشمیریوں کو گرانا ، ہراساں کرنا اور اُن کی ہمت اور استقلال کو توڑنا دلی کا اولین مقصد ہے لیکن نئی دلی کو سمجھنا چاہئے کہ ایسا کرکے کشمیریوں کی تحریک مزاحمت نہ صرف سو فیصدی درست ثابت ہوتی ہے بلکہ اُن کا عزم اور بھی پختہ ہو جا تا ہے “۔ انجینئر رشید نے NCسربراہ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے اس بیان کی بھی شدید نکتہ چینی کی ہے کہ سرکار کو بر خاست کرکے ریاست میں صدر راج لاگو کیا جائے ۔ انجینئر رشید نے کہا ©©”اگر چہ محبوبہ مفتی کو موجودہ دہشت اور مار دھاڑ کیلئے کسی بھی صورت میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن فاروق عبداللہ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر محبوبہ مفتی کی جگہ انہیں ، اُن کے بیٹے یا کسی سرکردہ علیحدگی پسند لیڈر کو بھی اقتدار سونپا جاتا ہے تو کیا صورتحال مختلف ہوگی ۔ یہ بات ہر ایک کو ڈھنکے کی چوٹ پر ماننی ہوگی کہ جب تک ہندوستان ہٹ دھرمی اور ضد چھوڑ کر جموں و کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو تسلیم کرکے با معنیٰ مذاکرات کیلئے صدق دلی سے سامنے نہیں آئے گا تب تک زمینی صورتحال پر کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں۔