اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو جب دنیا کی دوسری بڑی جمہوریت بھارت کے دورے پر پہنچے تو وزیر اعظم ہند نریندر مودی پروٹو کول کی کوئی پرواہ نہ کرتے ہوئے خود اُن کے استقبال کے لئے رن وے پر موجود تھے ۔ا س طرح وہ اسرائیل اور پوری دنیا کو یہ باور کرا رہے تھے کہ سیکولر ازم اور سوشلزم کا سب سے بڑا علمبردار ملک جو سرد جنگ میں غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں شامل تھا اور فلسطینیوں کے حقوق اور جدوجہد کا سب سے بڑا حامی ومددگار تھا ، وہ اب اس بلاک کا حصہ بن چکا ہے جس کی قیادت امریکہ اور اسرائیل کررہے ہیں۔ حالانکہ اسرائیلی وزیر اعظم کے دورۂ ہند کے کچھ ہی عرصہ پہلے بھارت اقوام متحدہ میں اس قرارداد کے حق میں ووٹ ڈال چکا تھا جس میں امریکہ کی طرف سے یروشلم کو اسرائیل کا دار الحکومت قرار دینے کا فیصلہ رد کردیا گیا تھا ۔
لیکن نہ اسرائیل کو بھارت کے اس اقدام سے کوئی فرق پڑا اور نہ ہی بھارت اسرائیل تعلقات میں کو ئی فرق آیا ۔ایک ناقابل اعتناء معاملہ سمجھ کر اسے نظر انداز کرتے ہوئے باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے ایک دوسرے کو عزت و احترام کا مقام عطا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔عالم انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہر اس وقت ایسے اتحاد پیدا ہوئے جنہیں قطبین کا اتحاد کہنا ہی مناسب ہوگا جب دنیا خونین معرکہ آرائیوں کے لئے تیار ہورہی تھی ۔اسرائیل ایک ایسا ملک ہے جو پہلے کبھی دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا ۔ایک جبر نے اس ملک کو قائم کیا اور ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس کی تہذیب صدیوں پر پھیلی ہوئی ہے اور جس کی نظریاتی اساس اس کے آئین کی بنیاد ہے ۔
ہند۔اسرائیل اتحاد کا محرک بظاہر نہ کوئی نظریاتی ہم آہنگی ہے نہ تہذیبی نہ قومی نہ مذہبی نہ سیاسی مطابقت بلکہ یہ صرف اور صرف اس صف بندی کا حصہ ہے جو کسی خوفناک ٹکراو کی تیاری کیلئے ہی وجود میں آرہی ہے ۔
جتنی بھی عالمی جنگیں آج تک ہوئیں ان میں متضاد نظریات ، تہذیبوں اور قوموں نے ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوکر انسانی خون کی ندیاں بہادیں ۔ آج کی دنیا بھی ایک ایسے مقام پر کھڑی ہے جہاں انسان کے چاروں طرف خوفناک تباہیوں کے بادل منڈلارہے ہیں ۔تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں ۔ مذاہب ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہیں ۔ قومیں ایک دوسرے کو نیست و نابود کرنے پر آمادہ ہیں اور دائمی تباہی کے ایٹمی ہتھیارقدرت کی اس حسین دنیا کو فنا کرنے کیلئے ایک بٹن کے دب جانے کے انتظار میں ہیں۔ ۔
عالم انسانی کے سفر میں اکثر ایسے مقام آئے جب انسان خود اپنی بربادی کے ساماں کرنے پر آمادہ ہوا ۔قدرت کے شفیق ہاتھوں نے ایسے ہی مواقع پر پیغمبروں کو بھیجا اور انسانی سوچ کا رُخ تبدیل کردیا ،لیکن اب پیغمبروں کی آمد کا سلسلہ بند ہوچکا ہے، اس لئے اب قدرت کی طرف سے کوئی مدد کوئی رہنمائی نہیں آنے والی ہے۔انسان کو خود ہی اپنی تقدیر کا رُخ متعین کرنا ہے۔ لیکن انسان کی سوچ قومی، تہذیبی ، ملکی ، مذہبی اورشخصی عصبیتوںمیں محدود اور محصور ہوکر رہ گئی ہے۔
بالکل اسی طرح کی صورتحال نے پہلی جنگ عظیم کا خونین باب انسانی تاریخ کا حصہ بنادیا اور پھر دوسری جنگ عظیم جس میں انسانی خون پانی کی طرح بہہ گیابھی اسی صورتحال کا نتیجہ تھی ۔ ان دونوں جنگوں کے پیچھے درپردہ ہاتھ ایک ہی قوم کا تھا جس کا اپنا کوئی وطن نہیں تھا جو روز ازل سے اس دنیا کی زمین پر دربدر اورخوار تھی ۔اس قوم کو عرف عام میں یہودی قوم کہا جاتا ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں براہ راست اس کا کوئی عمل دخل نہیں تھا لیکن جو قوتیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی تھیں انہیں ایک دوسرے کے خلا ف صف آراء کرنے میں اسی کا ہاتھ تھا اور اسی کے ردعمل میں جرمنی کے نازی ڈکٹیٹر اڈولف ہٹلر نے اس قوم کا صفایا کرنے کا بیڑا اٹھایا اور بڑی بے رحمی کے ساتھ اس قوم کا صفایا کرنے کی کوشش کی ۔ پوری جرمن قوم اس بات پر متفق تھی کہ یہودی قوم ہی پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی شکست اور تباہی کی وجہ بنی تھی اس لئے وہ اس قوم کو نیست و نابود کرنے میں ہٹلر کے ساتھ کھڑی تھی لیکن پوری دنیا میں پھیلی اس بے وطن قوم نے جرمنی کیخلاف دنیا کو متحد کرنے میں اور ہٹلر کی عظیم فوجی طاقت کو تہس نہس کرنے میں اہم کردار ادا کر کے جرمن ڈکٹیٹر سے انتقام لے لیا ۔جرمنی شکست کھاگیا اور فاتح قوموں نے اس عظیم ملک کو آپس میں بانٹ دیا ۔
ایک جرمنی ہی تقسیم نہیں ہوا بلکہ پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا ۔ سلطنت عثمانیہ ختم ہوگئی اور فاتح قوموں نے یہودیوں کی خدمات کے بدلے انہیں مشرق وسطیٰ میں ایک وطن کا مالک بنادیا ۔ایک مکمل تباہی کے باوجود اس چھوٹی سی قوم نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر بہت کم عرصے میں دنیا کے اہم ذرائع اور وسائل پر پھر سے کنٹرول حاصل کیا اور پھر ایک بار دنیا کی تقدیر کے فیصلے اپنے ہاتھوں میں لئے ۔دور رس منصوبہ بندی میں لاثانی اس قوم نے عظیم تر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کیلئے مسلم دنیا کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکہ کے اقتدار پر تقریباًپورا کنٹرول حاصل کرکے اس نے پہلے سوویت یونین کا خاتمہ کرنے کیلئے افغانستان کا راستہ چن لیا ۔حالانکہ اس قوم کو ایک وطن دلانے میں سوویت یونین کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا ۔ لیکن اپنے محسنوں کے پیٹ میں چھڑا گھونپ دینے کی اس قوم کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔دہشت گردی کا بیج بونے میں بظاہر امریکہ کا ہی ہاتھ نظر آتا ہے لیکن اصل میں امریکہ کے پردے میں یہودی ذہن اور منصوبہ بندی کا ہی عمل دخل رہا ہے ۔ہر امریکی صدر کے چناؤمیں یہودی لابی کا ہی ہاتھ اور اثر و رسوخ ہوتا ہے اور جب اس لابی کو دنیا کی تصویر اور تقدیر بدلنے کے فیصلہ کن موڑ پر پہنچنے کا احساس ہوا تو ایک ایسے فرد کو امریکہ کا صدر بنادیا جس کی دماغی صحت پر امریکیوں کوبھی بڑے خدشات لاحق ہیں ۔یہودیوں کو اس کے چناوسے پہلے ہی معلوم تھا کہ یہی ایک شخص ہوسکتا ہے جو یروشلم کو تن تنہا اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے سکتا ہے اور اس کے لئے امریکہ کو اقوام عالم سے ٹکرانے کی ہمت بھی کرسکتا ہے ۔
توسیع پسندی کے منصوبے پورے کرنے کیلئے دنیا کی زمین پوری طرح سے ہموار کردی گئی ہے ۔ملت اسلامیہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہوسکتی تھی لیکن اسے پہلے ہی دہشت گردی کے نرغے میں دھکیل کر ایک دوسرے کیخلاف لڑنے پر تیار کرلیا گیا ہے ۔ سعودی عرب میں غیر معمولی تدبیروں سے ان شہزادوں کا خاتمہ کردیا گیا جو کسی بھی طرح رکاوٹ ثابت ہوسکتے تھے اور ایسے عناصر کو منصہ اقتدارپر لایا گیا ہے جو اسرائیل کی توسیع پسندی کے عمل کو سراسر نظر انداز کرتے ہوئے اس کے ساتھ برادرانہ گٹھ جوڑ کی ڈور میں بند ھ چکے ہیں۔
کھلے عام ایران کو اسرائیل کے مقابلے میں بڑا دشمن قرار دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ جنگ جیسی صورتحال پیدا کردی گئی ہے ۔پورے مشرق وسطیٰ کو ایران عرب ٹکراوکا اکھاڑہ بنادیا گیا ہے اور اس طرح سے اسرائیل کو اپنے منصوبے پورے کرنے کیلئے ساری سہولتیں فراہم کردی گئی
ہیں ۔عرب ممالک اسرائیل کے ارادوں کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں لیکن دنیا کے وہ ملک جنہیں مسلم دنیا کا دشمن قرار دیا جارہا ہے اس قوم کے منصوبوں کو سمجھ رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ترکی کی پیش کی گئی قرارداد کا برطانیہ سمیت ہر ملک نے ساتھ دیا ۔بھارت نے اس کے باوجود کہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات حالیہ ایام میں خاص طور پر مودی حکومت کے قیام کے بعد کافی گہرے ہوچکے ہیں قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔اس کے پیچھے اس حکومت کی کئی اندرونی اور بیرونی مجبوریاں تھیں لیکن اس کے بعد اسرائیلی صدر نیتن یا ہو کی بھارت آمد پر وزیر اعظم ہند نے پروٹوکول کا قطعی خیال نہ کرتے ہوئے خود ائر پورٹ پر اسرائیلی صدر کا استقبال کرکے یہ تاثر دیا کہ اسرائیل اس ملک کا ایک اٹوٹ اتحادی بن چکا ہے ۔
قابل ذکر ہے بھارت نے آزادی کے بعد اسرائیل کے ساتھ بالکل کوئی تعلق نہیں رکھا ۔ ہر حکومت نے فلسطینی جدوجہد کی بھرپور حمایت اورمدد کی اور عربوں کے ساتھ گہرے مراسم قائم کئے ۔اب صورتحال بدل چکی ہے ۔ امریکہ جو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اورسیاسی
اتحاد ی تھا بھارت کا اتحادی بن چکا ہے ۔ بھارت خطے کی بہت بڑی فوجی طاقت ہے اور چین اور مسلم اکثریتی ایٹمی قوت پاکستان کے اتحاد کو اسرائیلی توسیع پسندی کے منصوبوں میں رکاوٹ بننے سے روکنے کے لئے ایک حکمت عملی کے طور دوست بنایا گیا ہے اور علاقائی اتحاد کا وہ نقشہ سب سے زیادہ پیش نظر ہے جو خود امریکہ کیلئے تشویش کا باعث ہے ۔چین ، ایران ، پاکستان ،وسط ایشاء کے ممالک اور روس فوجی اور اقتصادی اتحاد کے ساتھ پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرسکتے ہیں، اگر بھارت اس اتحاد کا حصہ ہوتا تو پھر امریکہ اور اسرائیل دنیا میں کبھی اپنے منصوبوں کی تکمیل کا خواب نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
امریکہ کی یہودی لابی جو کھیل کھیل رہی ہے اس میں بھارت کو ایک اہم کردار دینے کا صاف صاف عندیہ ملتا ہے لیکن یہ کھیل وہی صورتحال پیدا کررہی ہے جو پہلی اوردوسری جنگ عظیم کا باعث بن چکی تھی ۔دنیا کی بیشتر قومیں اور ممالک ٹکراو کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ۔ قومیں ، مذاہب ، ممالک ، تہذیبیں اور نظریات ایک دوسرے کے آمنے سامنے آخری معرکے کیلئے تیار ہیں ۔لیکن یہ آخری معرکہ پچھلی جنگجوں کی طرح عالم انسانی کو وسیع تر تباہی کے بعد اُبھر نے کا کوئی موقع پیچھے نہیں چھوڑ ے گا۔ یہ آخری معرکہ ہوگا جس میں عالم انسانی کا خاتمہ یقینی ہوگا اور اس معرکے کا ڈیزائن تیار کرنے میں وہی قوم سب سے بڑی محرک ہوگی جس نے اپنی بے پناہ صلاحیتوںکو ہمیشہ عالم انسانی کی خونریزیوں اور تباہیوں کے لئے ہی استعمال کیا ۔
بشکریہ ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم‘‘سرینگر