سکھ مذہب کے بانی گورونانک دیو جی کے یوم پیدائش کے موقعہ پر کرتارپورراہداری پوائنٹ کھولنے کے فیصلے کو ہندوپاک کے درمیان اعتمادسازی کے ایک بڑے اقدام کے طور پر دیکھاجارہاہے اورحالیہ دنوں بین الاقوامی سرحد و حد متارکہ پر دونوں ممالک کے سرحدی محافظوں کے درمیان امن برقرار رکھنے اور سیز فائر معاہدے کی پاسداری کے مقصد سے فلیگ میٹنگیں بھی منعقد ہوئی ہیں، جس سے کشیدگی میں ضرورکچھ حد تک کمی واقع ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ تشویش کی بات یہ ہے کہ گزشتہ روز رام گڑھ سیکٹر میں بی ایس ایف اور رینجرز کے درمیان ہوئی میٹنگ کے چند گھنٹوں کے بعد اسی سیکٹر میں فائرنگ اور گولہ باری کاتبادلہ بھی ہوا۔فلیگ میٹنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہونا اعتماد سازی کی کوششوں کو ٹھیس پہنچنانے کے مترادف ہے اوراس طرح کے اقدامات سے نہ صرف بین الاقوامی سرحد بلکہ حد متارکہ کی کشیدہ صورتحال پر مزید منفی اثرات پڑنے کا احتمال ہے اورپچھلے کچھ دنوں سے امن کی بحالی کیلئے دونوں طرف سے کی گئی کوششیں رائیگاں ہوسکتی ہیں ۔ایک طویل مدت سے حد متارکہ اور بین الاقوامی سرحد عملی طور پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جنگ کا میدان بنی ہوئی ہیں، جس کے دوران بڑی تعداد میں شہری و فوجی ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جبکہ بہت بڑی آبادی کو گھروں سے بے گھر ہوناپڑا۔ایک ایسے وقت میں جب سرحدی کشیدگی تشویشناک حد تک بڑھ گئی تھی اور حد متارکہ پر روایتی طریقہ کار سے قدرے مختلف سنائپررائفلوں کا استعمال ہوا،جس سے خوف و ہراس کی فضا پیدا ہوئی ،پہلے دیوالی کے موقعہ پر پونچھ اور مینڈھر سیکٹروں میں مٹھائیوں کے تبادلے اور اس کے بعد پونچھ راولاکوٹ راہداری پوائنٹ اور پھر گزشتہ روز رام گڑھ سیکٹر میں ہوئی فلیگ میٹنگ سے اس کشیدگی میں نمایاں کمی رونما ہوئی اورکوئی ہلاکت خیز واقعہ رونما نہیںہو،اجس سے سرحدی مکینوں نے بھی سکھ کی سانس لی ہے۔سرحد پر امن کی بحالی کی ایسی کوششیں جاری رہنی چاہئیں اور لوگ بھی یہی امید کررہے ہیں۔ لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ روز رام گڑھ سیکٹر میں فلیگ میٹنگ کے چند گھنٹوں بعد ہی دونوں ممالک کی افواج کے درمیان فائرنگ اور گولہ باری کا تبادلہ ہوا جو امن کے منافی اقدام ہے، خاص کر اُس سے وہ فضا ہی مکدر ہوکر رہ گئی جو فلیگ میٹنگوں سے پیدا ہوئی تھی۔اگرچہ اس واقعہ میں کسی طرح کا جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی گن گرج چالیس منٹ سے زیادہ دیرچلی لیکن اس سے فلیگ میٹنگ کے بعد قائم ہوئے دوستانہ ماحول کو نقصان ضرورپہنچا ۔بندوقوں کی دہانے بند کرکے سرحد پر امن کی بحالی کیلئے ایسے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف سرحدی آبادی سکون و چین سے زندگی بسر کرسکے بلکہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا بحال ہو اور حل طلب مسائل کے حل کیلئے ایک بار پھر بات چیت کاراستہ اختیا رکیاجائے لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ دونوں طرف کی فوجی و سیاسی قیادت سنجیدگی اور بصیرت کا مظاہرہ کرے اور دھونس دھمکیوں کے بجائے ایک دوسرے سے دوستانہ مراسم قائم کرنے کیلئے کوششیں کی جائیں ۔حالیہ فلیگ میٹنگوں کو ریاستی عوام، بالخصوص سرحدی آبادی، امن کی اُمید کے طور پر دیکھ رہی ہے اور اسے پھر سے صورتحال کو کشیدہ بناکر مایوس نہیں کیاجاناچاہئے ۔دونوں ممالک کو یہ بات بھی ذہن نشین کرناہوگی کہ کشیدگی سے کسی کا بھلا نہیں ہوگا اور نہ ہی ایسے حالات میں مجموعی ترقی کا خواب پورا کیاجاسکتاہے بلکہ ترقی کے مقصد کوپانے کیلئے پڑوسی ممالک سے دوستی کا راستہ اپنانا پڑے گااور ان کے ساتھ تصفیہ طلب مسائل کا ضرور حل مذاکرات کے ذریعے نکالنا ہوگا، جو موجودہ دور میں ساری دنیا کے اندر ایک مسلمہ اصول کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔