سرینگر/ /ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز جموں وکشمیر کے لالچوک سرینگر میں قائم آڈیٹوریم میں منعقدہ’’ فلکیاتی مشاہدے میں ٹیلی اسکوپ کے استعمال ‘‘پر دو روزہ ورکشاپ اختتام پذیر ہوا۔ورکشاپ کا اہتمام سائنس ٹیچرس ایسو سی ایشن، سپیک این جی او ، وگیان پرسار حکومت ہند ، پبلک آوٹ ریچ ایجوکیشن کمیٹی اور اسٹرانومیکل سوسائٹی آف انڈیا کے اشتراک سے کیا گیاتھا۔ اس مقصد کیلئے مالی تعاون و گیان پرسار حکومت ہند نے فراہم کیا تھا۔کمشنر سیکرٹری امداد ، باز آباد کاری اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ طلعت پرویز نے اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سائنس کی تدریس کو پُر اثر بنانے میں سائنسی سینٹر کے رول کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ واضح ہو کہ وادی کے پہلے سائنسی سینٹر کی بنیاد کولگام میں طلعت پرویز کے دور میں ڈالی گئی ۔اختتامی تقریب میںنیشنل انسٹی چیوٹ آف ٹیکنالوجی ( این آئی ٹی ) حضرت بل کی ایسو سیٹ پروفیسراور سائنس ٹیچرس ایسو سی ایشن جموں وکشمیر کی چیئرپرسن ڈاکٹر سیمیں رباب نے نظامت کے فرائض انجام دئیے اور تمام ماہرین اور شرکأ کا خیر مقدم کیا۔ انہوںنے تمام شرکأ سے اپیل کی وہ اس ورکشاپ سے حاصل شدہ سائنسی تعلیم کو اپنے اپنے سکولوں میں جاکر طلباء و طالبات کو تربیت فراہم کریں۔ ناظم تعلیمات کشمیر ڈاکٹر غلام نبی یتو بھی اختتامی تقریب پرموجود تھے۔انہوںنے ٹیچرس ایسو سی ایشن کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے اعلان کیا کہ مستقبل قریب میں ان کا محکمہ وادی کشمیر میں ایک بڑے سائنس سینٹر یا سائنس سٹی کا قیام عمل میںلائے گا۔انہوں نے DIETsمیں بھی وسائل کو وسعت دینے کا وعدہ کیااور سائنس کے نصاب میں بہتر ی لانے کی بھی یقین دہانی کی ۔سکولی بچوں ، ایسٹرانومی کے ماہرین کے علاوہ ورکشاپ میں صوبہ کشمیر کے 70سائنس مضمون کے اساتذہ نے حصہ لیا۔ورکشاپ کے انعقاد کا مقصد سائنسی تعلیم کے معیار کو بہتر بنانا تھا۔ عام طور پر سائنس کی تدریس میں عملی کام کو کم اہمیت دی جاتی ہے ۔ورکشاپ میں شامل اساتذہ کو دور بین کے استعمال سے واقف کرایا گیا۔24؍ مارچ کو غروب آفتاب کے بعد آڈیٹوریم کے احاطے میں فلکیاتی مشاہدے کا اہتمام کیا گیااور خوش قسمتی سے مطلع صاف تھا اور ورکشاپ کے شرکأ نے کسی سائنسی آلہ کے بغیر چند اجسام فلکی کا مشاہدہ کیا او رپھر دور بین کے ذریعے بھی کئی اجسام فلکی کا مشاہدہ کروایا گیا۔ا س موقعہ پر غروب آفتاب کے بعد فوراً بعدزہرہ سیارہ کا مشاہدہ کیا پھرسیریس نامی چمکیلے تارے کو دیکھا ۔ انہیں قطب تارے اور شمال کے سمت کے تعین کے بارے میں بھی تربیت دی گئی ۔لیزر پوائنٹر کی مدد سے انہیں کچھ تارے کے جھرمٹ کی پہچان کرائی گئی ۔انہیں قابل ذکرOrion ،دُب اکبر اورکیسوپیاہیں۔فلکیاتی مشاہدے سے نہ صرف سائنس کے کنسپٹ زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتے ہیں بلکہ ناظرین میں سائنسی مزاج پیدا ہوتاہے ۔فلکیاتی مشاہدہ ہر عمر کے لوگوں میں شوقیہ طور پر فلکیات کی تعلیم کو فروغ دیتا ہے۔اس ورکشاپ کے ماہرین کوہومی بھابھا سینٹر فار سائنس ایجوکیشن سے مدعو کیا گیا تھا۔انیکیت سولے ، پرتیش رندوے اور ساگر گوکھلے کو علم فلکیات کی تعلیم دینے کا خاطر خواہ تجربہ ہے ۔ان ماہرین کا تعلق بین الاقوامی اسٹرانومی المپیاڈ سے بھی ہے ۔واضح رہے کہ ہمارے صوبے سے مختلف مضامین جیسے فزکس، کمسٹری ، بیالوجی اور اسٹرانومی المپیاڈ میں شمولیت بہت کم رہتی ہے ۔اس موقعہ پر اسٹرانومی المپیاڈکا ایک خصوصی سیشن منعقد ہوا ۔المپیاڈتین سطحی بین الاقوامی مقابلہ جاتی امتحان ہے ۔پہلی سطح صوبائی ، دوسری ملکی اور تیسری عالمی ہوتی ہے ۔کسی بھی سکول کے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے طلباء و طالبات المپیاڈ کا امتحان دے سکتے ہیں۔صوبائی سطح پر کامیاب ہونے والے طلبا ء ملکی سطح کا امتحان دے سکتے ہیں۔اس میں کامیابی کے بعد ہومی بھابھا سینٹر میں ٹریننگ حاصل کرسکتے ہیں اور پھر عالمی مقابلہ کے لئے بیرون ملک جاسکتے ہیں ۔ اِن باتوں کا اِظہار ڈاکٹر سیمیں نے پروگرام کے اختتام پر کیا۔