امریکی ریاست فلوریڈا میں ایک نوجوان طالب علم کی جانب سے سکول میں فائرنگ کر کے 17 افراد کی ہلاکت کے بعد مختلف حلقوں کی جانب سے صدر ٹرمپ پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔صدر ٹرمپ نے اس واقعے کے بعد ’’دعائیں اور تعزیت‘‘ بھیجی ہے، لیکن بیشتر امریکیوں کا کہنا ہے کہ یہ ناکافی ہے۔سیاست دان، اداکار اور مصنفین ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے اسلحے کے بارے میں پالیسی میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔2013 کے بعد سے امریکہ میں اب تک سکولوں میں فائرنگ کے 291 واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کی شرح ایک واقعہ فی ہفتہ بنتی ہے،لیکن ابھی تک اسلحہ پر قابو پانے کے لیے موثر قانون سازی نہیں ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اسلحہ رکھنا ان کا آئینی حق ہے۔اسی طرح یکم اکتوبر 2017ء کی شب امریکی وقت کے مطابق رات دس بجے لاس ویگاس کے ایک کھلے میدان میں ’’ہارویسٹ میوزک فیسٹیول‘‘ پر موسیقی سے لطف اندوز ہونے والے ہزاروں افراد پر پنڈال کے قریب ہی واقع ’’منڈالے‘‘ ہوٹل کی 32 ویں منزل کی ایک کھڑکی سے اچانک فائرنگ شروع ہو گئی۔ موسیقی کے شور میں فائرنگ کی آواز کو لوگوں نے دور کہیں آتش بازی کا مظاہرہ سمجھا لیکن اردگرد موجود افراد کو گرتے مرتے اور زخموں کی وجہ سے چیخ و پکار کرتے دیکھا تو سب کو سمجھ آئی کہ فائرنگ موسیقی سننے والوں پر کی جا رہی ہے۔ فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ کسی کو سجھائی نہیں دے رہا تھا کدھر بھاگے کہاں پناہ تلاش کرے یا فائرنگ کرنے والوں کا اصل نشانہ کون ہے۔ لوگ افراتفری میں بھاگتے رہے۔ مرتے رہے‘ زخمی ہوتے رہے۔ 10 منٹ تک جاری رہنے والی اس فائرنگ میں 58 افراد ہلاک اور 851 زخمی ہوئے۔ مذکورہ اعداد و شمار لاس ویگاس پولیس کے فراہم کردہ تھے جب کہ تجزیہ کار اور موقع کے گواہان مارے گئے افراد کی تعداد کہیں زیادہ بتاتے رہے۔ جس وقت فائرنگ کے حوالے سے پوری دنیا کے الیکٹرانک میڈیا پر خبروں کا سلسلہ جاری تھا تو مسلمانوں کی جان پر بنی ہوئی تھی خصوصاً پاکستان میں ہر کوئی پریشان تھا کہ اگر فائرنگ کرنے والے پاکستانی نژاد نکل آئے تو امریکی صدر ٹرمپ کا ردعمل کیا ہو گا۔ جو حلف اٹھانے کے بعد سے پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور افغانستان میں برسر پیکار شدت پسندوں کی حمایت کا الزام لگاتا چلا آ رہا ہے اور دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگا کر پاکستان کے خلاف کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستانیوں کے ذہنوں میں ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کی سابق طالبہ تاشقین ملک اور اس کے شوہر سید رضوان فاروق کی یاد تازہ ہو گئی۔ ان میاں بیوی پر کیلیفورنیا میں خصوصی افراد کے ڈیپارٹمنٹ میں منائی جانے والی کرسمس پارٹی پر فائرنگ کر کے 14 افراد کو قتل اور 22 سے زائد کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ ان دونوں میاں بیوی کو پولیس نے چار گھنٹے بعد ایک شاہراہ پر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ سید رضوان فاروق امریکہ میں پیدا ہوا وہیں پلا بڑھا تھا لیکن پاکستانی شہریت رکھنے والی اس کی بیوی تاشقین کی وجہ سے امریکی حکام اور مغربی میڈیا تادیر پاکستان کے خلاف تبصرہ بازی میں مصروف رہے۔
لاس ویگاس کی پولیس فائرنگ کے مقام کا تعین کر کے ہوٹل کے اس کمرے تک پہنچی جہاں سے فائرنگ کی گئی تھی تو وہاں انہیں ایک سفید فام امریکی کی لاش ملی جسے 68 برس کی عمر کے سٹیفن پیڈوک کے طور پر شناخت کیا گیا جب کہ کمرے میں مختلف ساخت کی جدید ترین 24 خودکار دور مار اسالٹ رائفلیں موجود تھیں، جن کے ذریعے اس نے موسیقی سننے والوں پر گیارہ سو راؤنڈ فائر کئے۔ اس کا امریکی ہونا ثابت ہو گیا تو تحقیق کرنے والے امریکی اداروں نے سٹیفن کے اسلام پسندوں سے رابطوں اور داعش سے اس کے گٹھ جوڑ کی کھوج شروع کر دی۔ امریکی عوام نے اس سانحہ کو ’’نائن الیون‘‘ کے بعد سب سے بڑی دہشت گردی قرار دیا لیکن امریکی حکومت کسی بھی امریکی کیلئے دہشت گرد کا لفظ استعمال کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ ٹرمپ نے سٹیفن کو ذہنی مریض قرار دے دیا۔ حالانکہ سٹیفن پیڈوک کا ماضی کے حوالے سے کوئی بھی ایسا ریکارڈ نہیں تھا جس کی بنا پر اسے ذہنی مریض قرار دیا جا سکتا۔ امریکی میڈیا میں یہ آواز اٹھی جس میں سوال اٹھائے گئے کہ تن تنہا سٹیفن 24 عدد دور مار رائفلوں اور ہزاروں راؤنڈزکو پانچ ستاروں والے ہوٹل کی 32 ویں منزل پر لے جانے میں کس طرح کامیاب ہو گیا۔ امریکی تحقیقاتی اداروں نے سٹیفن کی موت کے حوالے سے بھی پراسرار خاموشی اختیار کر لی کہ اس کے پاس موجود اسلحہ کے ذریعے اگر وہ خود کشی کرتا تو اس کے سر کے چیتھڑے اپڑ جاتے اور چہرہ شناخت کے قابل ہی نہ رہتا تو پھر اسے مارنے والے کون تھے؟
امریکی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی اس امر پر خاموشی کے باوجود پوری دنیا جرائم کے حوالے سے امریکہ کی داخلی صورت حال سے آگاہ ہے۔ خاص کر ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے بعد وہاں سفید فام نسل پرستی جس طرح ابھر کر سامنے آئی ہے یہ سب برس دو برس کی بات نہیں امریکی سیاہ فام صدیوں سے اس نسل پرستی کا شکار چلے آ رہے ہیں لیکن ٹرمپ کے اقتدا کے بعد مسلمان امریکی اقلیت زیادہ مشکل سے دوچار ہے۔ باپردہ یا سکارف باندھنے والی مسلمان خواتین پر سڑکوں پر تشدد‘ تعلیمی اداروں میں مسلمان بچوں کی مذہبی شاخت کی بنا پر تضحیک معمول بنتی جا رہی ہے۔ مذہبی حوالے سے پاکستانی نڑاد امریکیوں کو زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ امریکہ میں سفید فام نسل پرستوں کی تنظیمیں جس طرح متحرک ہیں اسے دیکھ کر بھارت میں برسر اقتدار جماعت بی جے پی کے انتہا پسند ہندو بلوائیوں اور غنڈوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جن کے سامنے پولیس اور قانون اس لئے بے بس ہے کیونکہ ان کا لیڈر بھارت کا وزیراعظم ہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال امریکہ میں سیاہ فاموں اور ان کے ساتھ ہی اب مسلمانوں کو درپیش ہے۔ شاید ٹرمپ امریکی کانگریس میں موجود سفید فام نسل پرست سیاسی اشرافیہ‘ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اس طرح کے نظریات رکھنے والے بااثر لوگ جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو فاشسٹ قوت میں تبدیل کر کے دنیا کو تیسری عالمی جنگ کی طرف یہ سوچ کر دھکیلنا چاہتے ہیں کہ دنیا تباہ ہوتی ہے تو ہو۔ براعظم امریکہ کا باقی دنیا سے فاصلہ ان کا تحفظ کرے گا۔لاس ویگاس میوزک فیسٹیول پر فائرنگ کے سانحہ کے بعد امریکی میڈیا کے ذریعے سامنے لائے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کی تمام ریاستوں میں لگ بھگ 900 سفید فام نسل پرستوں کے گروہ سرگرم عمل ہیں۔ 1990ء تک سالانہ سفید فام نسل پرستوں کی طرف سے سیاہ فاموں اور ایشیائی نڑاد افراد پر حملوں کی رپورٹ ہونے والی تعداد ایک سو سے کم تھی جو 2000 تک دگنی اور 2011 تک 300 حملوں سے تجاوز کی گئی لیکن ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد سفید فام نسل پرستوں کی طرف سے حملوں میں تیزی سے اضافہ ریکارڈ کیاگیا اور اس کی تعداد 2017ء میں 400 تک جا پہنچی۔ عام امریکی اس طرح کے حملوں کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں جب کہ امریکی حکام یا سیاسی اشرافیہ کی نظروں میںیہ عمل "Act of evil" یا HATE CRIMES کے زمرے میں آتا ہے ‘اس کے برعکس اگر ذاتی جھگڑے کی بنیاد پر امریکہ میں کسی مسلمان سے کوئی قتل سرزد ہو جائے تو اسے فوری طور پر دہشت گرد قرار دے کر اسلام و مسلمانوں کے خاف پروپیگنڈہ شروع کر دیا جاتا ہے۔