ڈاکٹرسعید احمد صدیقی
عیدالاضحی کے موقع پرقربانی ایک فریضہ بھی ہے اور دینی شعار بھی۔قرآن وسنت میں قربانی کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں۔فلسفۂ قربانی تسلیم ورضا کی لازوال داستان ہے۔جس میں قدرت کی طرف سے بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے ہجرت کے بعد دس سال مدینۂ طیبہ میں قیام فرمایا اور آپؐ برابر ہر سال قربانی فرماتے رہے۔‘‘ (جامع ترمذی)۔حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جس کے پاس گنجائش ہو اور اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے،وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ (ابن ماجہ ۔ باب الاضاحی)حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا ’’ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ یعنی عید الاضحی کے دن فرزند آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کو قربانی سے زیادہ محبوب نہیں ‘‘۔ (جامع ترمذی ،سنن ابن ماجہ)
قربانی کے عظیم شعار پر عمل کرنے کے بارے میں پوری امت مسلمہ سرکار دو عالمؐ کے دور سے تاحال اس بات پر متفق ہے کہ سیّدنا حضرت ابراہیمؑ کی سنت جو رحمۃ للعالمینؐ کے عمل کے باعث پوری امت مسلمہ کے لیے ضروری قرار پائی،یہ شعائر اسلام میں سے ہے اور جب تک مسلمان اس دنیا میں ہیں، اس عظیم شعار پر عمل ہوتا رہے گا، اس سلسلے میں امت کی دو رائے نہیں۔رحمۃ للعالمینؐ کا اسوۂ حسنہ ایک کھلی کتاب کی طرح ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور ہم نے دیکھ لیا کہ رسول اکرمؐ مدینۂ منورہ میں عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں قربانی فرماتے تھے اور آپؐ کا یہ معمول پوری مدنی زندگی پر محیط ہے،مگر آج آپؐ کے اسوۂ حسنہ،آپؐ کے فرامین،صحابہؓ ،تابعینؒ، ائمہ کے فرامین اور عمل کے سامنے رائے زنی کی جسارت کرنا اور قرآنی آیات کی من مانی تا ویلات کرنا ہمارے بعض نام نہاد دانشوروں کی عادتِ ثانیہ بن چکی ہے۔ یہ آپؐ کے فرامین مبارکہ کا انکار اور عمل تواتر کی مخالفت کی ناپاک جسارت ہے۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ہر سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ قربانی ہوتی ہے۔قرآنی آیات ، قول رسولؐ، عمل رسولؐ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ قربانی ،حج یا خانۂ کعبہ سے مشروط نہیں ۔اس کی فضیلت اپنی جگہ مگر ہر صاحب نصاب مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہو، وہ اپنے مقام پر قربانی کرے جس طرح آپؐ نے مدینۂ منورہ میں قربانی فرمائی ۔ہمارے بعض مفکرین اوردانش ور یہ رونا روتے ہیں کہ تین دنوں میں مسلسل لاکھوں جانور ذبح کرنے سے جانور کم ہو جائیں گے۔ معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے ،پورا سال لوگوں کو گوشت ملنے میں مشکلات پیدا ہوںگی،مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کے اس باطل اندیشے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ۔ تحقیق، عمل ،اعداد و شمار ان کے اندیشے کی نفی کرتے ہیں۔نظام قدرت پورے عالم میں ہمیشہ سے یہ ہے کہ جب دنیا میں کسی چیز کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے تو رب العالمین اس چیز کی پیداوار بڑھا دیتا ہے اور حسب ضرورت ہوتی ہے تو پیداوار بھی گھٹ جاتی ہے، مثال کے طور پر اب سے سو سال پہلے تک تمام سفر گھوڑوں پر طے کیے جاتے تھے اور ساری دنیا میں جنگیں گھوڑوں کے ذریعے ہی کی جاتی تھیں، فوج کے لیے لاتعداد گھوڑے پالے جاتے۔ اب موجودہ زمانے میں جب گھوڑوں کی جگہ موٹر،ہوائی جہاز اور دیگر سواریوں نے لے لی ہے تو ان دانش وروں کے مطابق گھوڑوں کی تعداد بہت بڑھ جائے، گلی کوچوں میں گھوڑے پھرتے نظر آئیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی تعداد گھٹ گئی اور قیمت بڑھ گئی۔جن جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے،پوری دنیا میں ان کی فراوانی ہے، اس کے مقابلے میں جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ۔ان کی تعداد مسلسل گھٹ رہی ہے۔ بعض کی تو نسل ناپید ہو رہی ہے۔یہ قدرت کا کارخانہ،اس کا نظام ،انسانی سمجھ ، فہم و ادراک اور انسانی تجزیوں سے بہت بلند ہے ،لاکھوں جانور جو روزانہ گوشت کے لیے ذبح کیے جاتے ہیں، وہ عید کے دن ذبح نہیں ہوتے، بلکہ عید سے قبل اور بعد بھی ذبح ہوتے ہیں،اس طرح کچھ معمولی سا فرق پڑتا ہے جو کسی بھی طرح سے قابل توجہ نہیں، پھر عید کے موقع پر بعض ایسے لوگوں کو بھی گوشت پہنچ جاتا ہے جو سال میں ایک دو مرتبہ ہی گوشت کھا سکتے ہیں۔
آج اہل مغرب ،روس ،جاپان اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ قلت آبادی ہے ،کیوںکہ ان کا اندیشہ قلت خوراک اس کا سبب بنا۔ آج ان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی آبادی کی شرح مسلسل گر رہی ہے۔ کیوںکہ انہوں نے خدا کے بنائے ہوئے قانون کے مقابلے میں ایک نام نہاد منفی نظر یے کو اپنا آئیڈیل تصور کیا۔ آج جب وہ خود ہی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں تو انہوں نے مسلم ممالک میں انحطاط آبادی کی مذموم مہم شروع کر رکھی ہے اور ان پر جنگ مسلّط کر رکھی ہے کہ کسی طرح ان کی آبادی انحطاط کا شکار ہو۔منکرین قربانی کے منفی پرو پیگنڈے میں ایک پروپیگنڈا یہ بھی ہے کہ جو روپیہ پیسا قربانی پر خرچ ہوتا ہے،اس سے ضرورت مندوں کی مدد کی جائے اور قربانی کی مد میں اسے ضائع نہ کیا جائے۔ بے شک ضرورت مندوں کی مدد ضروری ہے، مگر اس کے لیے اسلامی شعائر کے گلے پر چھری نہ پھیریں، کچھ خواہشات نفس کی قربانی کرکے ضرورت مندوں کی مددکیجیے۔ قربانی سے بہرحال ضرورت مندوں کی مدد ہوتی ہے۔ گوشت کے ذریعے،چرم قربانی کے ذریعے ہزاروں لوگوں کو ان تین دنوں میں بڑے پیمانے پر روزگار ملتا ہے جو جانور ذبح کرتے ہیں ، وہ اتنا کما لیتے ہیں جو ان تین دنوں میں ان کے مہینے بھر کے لیے کافی ہوتا ہے۔
ہر عبادت میں ثواب کے علاوہ کچھ مخصوص آثار بھی ودیعت کئے گئے ہیں۔ جیسے نماز میں تواضع و انکساری ،زکوٰۃ میں مال کی تطہیر، روزہ اور حج سے اللہ کی محبت بڑھتی ہے اور اس میں ترقی ہوتی ہے،اسی طرح قربانی سے ایمان و اخلاص میں قوت، اعمال شاقہ کے لیے عزم و ہمت پیدا ہوتی ہے۔نہ صرف قربانی بلکہ ہر معاملے میں ہم اپنے پیارے نبیؐ کے اسوۂ حسنہ کی پیروی کریں،آپؐ کی اتباع میں ہماری دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی مضمر ہے۔ قربانی کے حوالے سے ہمارے پیارے نبیؐ کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہے کہ آپؐ نے مدنی زندگی میں پابندی سے قربانی کا فریضہ انجام دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جو گنجائش کے باوجود قربانی نہ کرے،وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے۔ اسلامی فکر سے عاری دانش ور اور منکرین حدیث کے پروپیگنڈے کا شکار نہ ہوں، اپنی حیثیت کے مطابق اخلاص کے ساتھ قربانی کریں۔ رحمۃ للعالمینؐ کے فرامین اور عمل و سنت کے آگے کسی بھی پروپیگنڈے کی کوئی حقیقت نہیں۔ عہد کریں نہ صرف قربانی بلکہ ہر معاملے میں پیارے نبی ؐ کی تعلیمات اور طور طریقوں پر عمل کریں گے، ہر معاملے میں یہ دیکھیں گے کہ اللہ کریم کا حکم اور پیارے نبیؐ کا طریقہ کیا ہے۔ بس وہی ہمارے لیے راہ نجات ہے۔ ہم اسے حاصل کرنے کے لیے اپنی تمام تر خواہشات نفسانی کو قربان کریں گے اور پیارے نبیؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں گے۔