Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

فلسطین مسئلہ پر ہندوستانی موقف میں تبدیلی کیوں؟ ندائے حق

Towseef
Last updated: October 6, 2024 11:08 pm
Towseef
Share
10 Min Read
SHARE

اسد مرزا

1947 میں ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کی تقسیم کے خلاف ووٹ دیا۔ ہندوستان پہلی غیر عرب ریاست تھی جس نے 1974 میں فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کو فلسطینی عوام کے واحد اور جائز نمائندے کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ ہندوستان 1988 میں فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں سے ایک تھا۔یہ تمام تاریخی ریکارڈ اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ فلسطین کے ساتھ ہندوستان کے دیرینہ سفارتی تعلقات ہمیشہ سے فلسطینی کاز کی حمایت پر مبنی رہے۔ دوسری طرف، جب کہ ہندوستان نے 1950 میں اسرائیل کے قیام کو تسلیم کیا تھا، لیکن اس نے 1992 تک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تھے، اور سابقہ ہندوستانی حکومتیں زیادہ تر اسرائیل کے ساتھ خاموشی سے معاملات طے کرتی رہی تھیں۔

لیکن گزشتہ ایک سال کے عرصہ کے دوران ہندوستان نے کھل کر اسرائیل کی حمایت کرنا شروع کردی ہے اور کبھی کبھار ہی فلسطین کاز کی بات کرتا ہے۔ یہی ہندوستان ان ممالک میں شامل تھا جنہوں نے غزہ میں’’انسانی جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں کی حمایت نہیں کی۔صرف موقع کے حساب سے اس نے فلسطین کاز کی بات کی جیسا کہ گزشتہ مہینے نیویارک میں فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات میں پی ایم مودی نے فلسطینی کاز کی بات کی۔

اسی طرح ہندوستان غزہ کی جاری جنگ میں واضح طور پر ایک فریق بن رہا ہے۔ وہ اسرائیل کی طرف ہے یہ بالکل صاف ہے۔شاید اس کی وجہ ہندوستان کا ہرسال تقریباً 2 بلین ڈالر مالیت کے اسلحہ کی خریداری ہے، جو وہ اسرائیل سے خریدتا ہے اور جو اسرائیل کی کل برآمدات کا 30 فیصد حصہ ہے۔

اس کے ساتھ ہی سیاسی اور خارجی سطح پر پی ایم مودی نے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہمیشہ کھلے عام اسرائیل کی حمایت کی ہےاور جس طرح سے گزشتہ سال 7 ؍اکتوبر کو حزب اللہ کے حملے کی انھوں نے اپنے ٹویٹ کے ذریعے مذمت کی تھی، اس سے ہندوستانی حکومت کی فلسطین کے تئیں پالیسی صاف عیاں ہوجاتی تھی۔

واشنگٹن ڈی سی میں ولسن سینٹر نامی تھنک ٹینک میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے اپنی تحریروں میں نشان زد کیا ہے کہ اس طرح ہندوستان نے اس بار اسرائیل کے حامی موقف سے کہیں زیادہ مضبوط اسرائیل-فلسطینی تنازعات کے دوران اپنا موقف اختیار کیا ہے۔انہوں نے یہ بھی مشاہدہ کیا کہ جنگ بندی کا مطالبہ کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد پر ہندوستان کی عدم توجہی کی جڑیں ملکی سیاست سے زیادہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ہیں۔’’ہندوستان موجودہ تنازعہ کو انسداد دہشت گردی کی نظر سے دیکھتا ہے، اور وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کو انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے طور پر دیکھتا ہے اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیاں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جنگ بندی کے لیے نہیں رکتی ہیں‘‘ کوگل مین نے کہا۔

مزید برآں، موجودہ جنگ کے آغاز سے ہی، ہندوستان میں اسرائیل حامی ریلیاں ایک معمول کا واقعہ بن رہی تھیں ،جنھیں کہ حکومت کی سرپرستی حاصل تھی، جب کہ ہندوستانی حکومت فلسطین کے حامی مظاہرین کو اپنا نشانہ بنا رہی تھی۔اس کے ساتھ ہی ہندوستان کے دائیں بازو کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس غلط خبروں کے اہم تقسیم کاروں میں شامل تھے جو انسٹاگرام، فیس بک اور ایکس جیسی سوشل میڈیا سائٹس پر فلسطینیوں کے خلاف جذبات کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کیے جارہے تھے۔اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہندوستانی حکومت کے ساتھ ساتھ ہندوستانی عوام کی اکثریت کے اندر بھی کیا ذہنی تبدیلی آئی ہے کہ وہ اب کھلے عام اسرائیل کی حمایت کرتے نظر آرہے ہیں۔ کیا ہندوستان کا ردعمل صرف ’’انسداد دہشت گردی‘‘ کے بارے میں ہے یا کہانی کچھ اور بھی ہے؟اس کی وجوہات بہت سی اور کثیر جہتی ہیں، جن میں ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کے ابھرنے اور موجودہ حکومت کے انتخابی ایجنڈے سے لے کر امریکہ کے ساتھ ہر قیمت پر اچھے تعلقات برقرار رکھنے کی کوششوں کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں پر مستقل ہندو بالادستی قائم کرنا بھی شامل ہے۔

“Hostile Homelands: The New Alliance Between India and Israel” کے مصنف آزاد عیسیٰ کے مطابق ہندوستان کو ہمیشہ فلسطین کے دوست کے طور پر دیکھا گیا، لیکن جو بات لوگ بھولتے نظر آتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہندوستان بھی دوسری ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے جو اپنے مفادات کے مطابق اپنے خارجی امور طے کرتی ہے۔ 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں، اس نے ہندوستان کو استعمار مخالف اور فلسطین کے حامی کے طور پر دیکھا، کیونکہ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہندوستان کو عرب تیل تک با آسانی رسائی ملے اور پاکستان کو کشمیر کے سوال پر عرب دنیا کی حمایت حاصل نہیں ہوسکے۔بعد میں جب اس نے عالمی معیشت میں شامل ہونا اور امریکہ کے قریب ہونا چاہا تو نئی دہلی نے اسرائیل کے قریب جانا شروع کر دیا۔ نریندر مودی کے دور میں یہ تعلقات ایک اسٹریٹجک تعلقات کے نقطہ پر مرکوز ہو گئے ہیں۔’’لوگوں کو بتایا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے سے ہندوستان کو ہندو ریاست کے طور دوبارہ قائم کرنے اور ہندوستان کو عالمی طاقت میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘ ایسا نے وضاحت کی۔تاہم، کوگل مین کے نزدیک حماس اور اسرائیل دونوں کی مذمت کرنا بالکل مناسب ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ اس بات کا معاملہ ہے کہ پہلے یا دوسرے کیا آتا ہے۔اس وقت جنگ بندی کے مطالبے میں ہندوستانی حکومت کی بے حسی کے پیچھے بھی ایک انتخابی ایجنڈا ہے۔ہندوستان ایک انتخابی آمریت میں تبدیل ہو چکا ہے، پی ایم مودی حکومت کی بنیادی توجہ کسی بھی قیمت پر انتخابات جیتنے پر مرکوز رہتی ہے۔‘‘

کوگل مین کا مزید کہنا ہے کہ ہندوستان کے لیے اصل مسئلہ چین کی وجہ سے بھی اہم ہے۔ نئی دہلی جانتا ہے کہ بیجنگ مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑے پیمانے پر بڑھا رہا ہے۔ ایران کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری سے لے کر ایران۔ سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے معاہدے کی حالیہ ثالثی تک۔اس پس منظر میں ہندوستان سفارتی سطح پر یہ توقع رکھتا ہے کہ موجودہ حالات میں اسے امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے چاہئیں اور اپنے مفادات کا دفاع کرنا چاہیےاور اگر عرب ممالک سے اس کی اسرائیل حمایت پر کوئی سوال اٹھتا ہے تو پھر وہ اپنی اسرائیل حمایت پر نظرِ ثانی کرسکتا ہے۔

دراصل کوگل مین اور آزاد عیسیٰ کی طرح ہی ایک اور سیاسی تجزیہ نگار اشوک سوئین جو کہ سوئیڈن کی اُپسالا یونیورسٹی کے شعبۂ امن اور تنازعات کی تحقیق کے سربراہ ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ہندو قوم پرستی اپنے عروج پر ہے اور یہ ہندوستانی موقف کے پس پردہ ایک بڑا کام کررہی ہے، ساتھ ہی ہندوستانی میڈیا جو کہ ہندو قوم پرست حکومت کے زیرِ اثر ہے وہ بھی فلسطین مخالف بیانیے کو فروغ دینے میں اپنا پورا کردار ادا کررہا ہے۔ جبکہ ہندوستان کے بیشتر عوام اب بھی فلسطین کی جدوجہدِ آزادی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن حکومت اپنے جابرانہ رویے کے ساتھ اسے منظرِ عام پر آنے نہیں دیتی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لیے ہندوستانی حکومت کی حمایت کسی سیاسی نظریے یا سفارتی امور میں آگے بڑھنے کی کوشش کے بجائے بڑی حد تک اسلاموفوبیا سے متاثر ہے۔ مجموعی طور پر جو رویہ ہندوستانی حکومت نے فلسطین کاز کی حمایت نہ کرکے اپنایا ہے، اس سے اس کی اسلام مخالف ذہنیت صاف عیاں ہوجاتی ہے اور ہم صرف امید ہی کرسکتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اسے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنے کی وجہ سے اپنے رویے پر نظر ثانی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے۔

(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
چاند نگر جموںکی گلی گندگی و بیماریوں کا مرکز، انتظامیہ کی غفلت سے عوام پریشان پینے کے پانی میں سیوریج کا رساؤ
جموں
وزیرا علیٰ عمر عبداللہ سے جموں میں متعدد وفود کی ملاقات
جموں
کانگریس کی 22جولائی کو دہلی چلو کال، پارلیمنٹ کاگھیرائوکرینگے ۔19کو سری نگر اور 20جولائی کو جموں میں راج بھون تک احتجاجی مارچ ہوگا
جموں
بھلا کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی پر حکام کی سرزنش بی جے پی پر جموں کے لوگوں کو دھوکہ دینے کا الزام
جموں

Related

مضامین

ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی مقدس فصل ہے روشنی

July 17, 2025
مضامین

انسان کی بے ثباتی اور اس کی غفلت فہم و فراست

July 17, 2025
مضامین

حسد کا جذبہ زندگی تباہ کردیتا ہے فکر وفہم

July 17, 2025

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دورِ حاضر میں انسان کی حُرمت دیدو شنید

July 17, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?