یواین آئی
یروشلم // اسرائیلی نشریاتی ادارے کے مطابق فلسطینی تنظیم حماس خفیہ طور پر اْس مجوزہ ٹکنوکریٹ حکومت کی تشکیل میں حصہ لے رہی ہے جو جلد غزہ کی انتظامی ذمہ داری سنبھالنے والی ہے۔ ادارے کا کہنا ہے کہ حماس نے اس حکومت کے تقریباً نصف اراکین اپنی سفارش کردہ فہرست میں شامل کیے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو بظاہر غیر جانب دار نظر آتے ہیں، مگر دراصل تنظیم کے نظریات اور موقف کے حامی ہیں۔دوسری جانب حماس کے رہنما اور مذاکراتی وفد کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سرپرستی میں قائم بین الاقوامی سیاسی ارادہ ہی امن معاہدے کے تکمیل کی ضمانت ہے۔ انھوں نے تمام ثالثوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مشکلات کے خاتمے کے لیے پْرعزم ہیں۔الحیہ کے مطابق حماس کو اس بات پر اصرار ہے کہ تمام لاشیں معاہدے کے مطابق واپس کی جائیں گی، اگرچہ ملبہ ہٹانے کے لیے درکار سازوسامان کی کمی اس عمل کو مشکل بنا رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حماس اور دیگر فلسطینی دھڑے فائر بندی کے معاہدے پر مکمل طور پر کاربند ہیں۔ادھر امریکی اخبار “نیو یارک ٹائمز” نے امریکی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کو اس بات پر بڑھتی ہوئی تشویش ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو ممکنہ طور پر غزہ میں فائر بندی کے معاہدے سے دست بردار ہو سکتے ہیں۔حکام کے مطابق وائٹ ہاؤس کی موجودہ حکمتِ عملی یہ ہے کہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، ایلچی اسٹیو وٹکوف اور جیرڈ کشنر نیتن یاہو کو حماس پر مکمل فوجی حملہ دوبارہ شروع کرنے سے روکنے کی کوشش کریں۔ آج نائب صدر جے ڈی وینس اسرائیل پہنچ رہے ہیں، جہاں ان کی ملاقات نیتن یاہو سے ہوگی تاکہ غزہ میں فائر بندی کے دوسرے مرحلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق وینس اپنے غزہ کے مجوزہ اندرونی دورے سے اجتناب کریں گے، جس کی وجہ سیکیورٹی خدشات بتائی گئی ہے۔ وہ صرف اسرائیلی وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر میں خصوصی اسکرینوں پر ڈرون کیمروں کے ذریعے غزہ کی صورت حال کا مشاہدہ کریں گے۔