ایجنسیز
واشنگٹن// سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ان کی مملکت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیمی کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا چاہتی ہے لیکن پہلے فلسطینی ملک کے لیے “واضح راستے” کی ضرورت ہے۔سعودی عرب کے ڈی فیکٹو حکمران نے ٹرمپ کے ساتھ اوول آفس میں کہا کہ “ہم معاہدہ ابراہیمی کا حصہ بننا چاہتے ہیں، لیکن ہم یہ بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ دو ریاستی حل کے لیے واضح راستہ محفوظ بنایا جائے۔” انہوں نے مزید کہا، “ہم اس پر کام کرنے جا رہے ہیں، اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہم جلد از جلد صحیح صورت حال تیار کر سکتے ہیں۔ٹرمپ نے دباؤ ڈالتے ہوئے کہا کہ ‘ان کے مہمان معاہدہ ابراہیمی کے لیے “بہت اچھے احساسات” رکھتے ہیں، اس پر شہزادے نے کہا کہ “ہم اسرائیلیوں کے لیے امن چاہتے ہیں۔ ہم فلسطینیوں کے لیے امن چاہتے ہیں۔” “ہم چاہتے ہیں کہ وہ خطے میں پرامن طور طریقے سے ایک ساتھ رہیں، اور ہم اس ہدف تک پہنچنے کی پوری کوشش کریں گے۔”سنہ 2020 میں متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے معاہدہ ابراہیمی کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا، جسے ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے سفارتی فتح قرار دیا۔ سعودی عرب کو اسلام کے دو مقدس ترین مقامات کے محافظ کی حیثیت اور عرب اور اسلامی دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے بڑی اہمیت حاصل ہے اور اگر وہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لاتا ہے تو یہ اسرائیل کے لیے غیر معمولی کامیابی تصور کی جائے گی۔متحدہ عرب امارات کے برعکس سعودی عرب نے بارہا کہا کہ فلسطینی ملک کا قیام اس کا ہدف ہے۔ نتن یاہو نے طویل عرصے سے دو ریاستی حل کو رد کرتے آ رہے ہیں۔ ٹرمپ کے غزہ امن معاہدے میں فلسطینی امنگوں کی ہلکی پھلکی توثیق کے باوجود متعدد حالیہ بیانات میں اسرائیلی وزیر اعظم نے واضح طور پر کہا کہ کوئی فلسطینی ملک نہیں ہوگا۔نیتن یاہو انتہائی دائیں بازو کے حامیوں کے ساتھ اتحادی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں جو نہ صرف فلسطینی ریاست کو مسترد کرتے ہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل مغربی کنارے کا بھی الحاق کر لے۔