یو این آئی
غزہ //اسرائیل نے ایک بار پھر رمضان کے بابرکت مہینے میں فلسطینیوں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے اور عبادات پر نئی پابندیاں لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔رمضان المبارک کے دوران 13 سال سے 50 سال تک کی عمر والے فلسطینیوں کے داخلے پر مکمل پابندی ہوگی۔علاوہ ازیں 13 سے 50 سال عمر تک کی فلسطینی خواتین کو بھی عبادات کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔رمضان المبارک کے دوران نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے بھی صرف 10 ہزار افراد کو اجازت دی جائے گی۔ صیہونی ریاست نے فیصلہ کیا ہے کہ صرف 55 سال سے بڑے مرد اور 50 سال سے بڑی خواتین اور 12 سال یا اس سے چھوٹے بچوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت ہوگی۔صیہونی ریاست نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ حال ہی میں غزہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں سے رہا ہونے فلسطینی قیدیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ داخل ہونے کے خواہش مندوں کو پہلے اجازت نامے کے لیے درخواست دینا ہوگی۔ادھر اسرائیلی رکنِ پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیرِاعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیٹے، یائیر نیتن یاہو، کو والد پر مبینہ حملے کے بعد میامی، امریکہ بھیج دیا گیا ہے۔یہ الزام لیبر پارٹی کی رکن کنیسٹ (پارلیمنٹ) نعامہ لازیمی نے لگایا، جنہوں نے حکومت سے سوال کیا کہ یائیر نیتن یاہو کی امریکہ میں قیام کے لیے سیکیورٹی فنڈز جاری رکھنے کا کیا جواز ہے؟نعامہ لازیمی نے کہا کہ یائیر نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے “ریاستی اختیار کی علامت” کی بے حرمتی کی، اس لیے عوامی فنڈز کے ذریعے ان کے میامی قیام کی مالی مدد کی جا رہی ہے۔ان کے مطابق، نیتن یاہو کی اہلیہ سارہ نیتن یاہو کے دو ماہ کے غیر ملکی قیام کے اخراجات کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی نے اس دعوے کو “جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی” قرار دیتے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی دی۔ پارٹی کا کہنا تھا کہ یہ سیاسی مخالفین کی جانب سے بے بنیاد الزام تراشی ہے۔یائیر نیتن یاہو 2023 میں اسرائیل چھوڑ کر پہلے پورٹو ریکو اور پھر میامی منتقل ہوگئے تھے۔ ان کے وکلا کا کہنا ہے کہ وہ سیاسی وجوہات کی بنا پر ملک سے باہر ہیں اور اسرائیل میں نارمل زندگی گزارنا ممکن نہیں۔اس معاملے پر قانونی جنگ جاری ہے، اور یہ تنازع نیتن یاہو خاندان کی سرگرمیوں اور عوامی فنڈنگ کے حوالے سے وسیع تر سیاسی بحث کا حصہ بن چکا ہے۔
دو ریاستی حل ہی واحد تصفیہ :یورپی یونین
بروسیلز/یو این آئی/ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ نے دو ریاستی حل کو ہی واحد حل قرار دیا ہے ۔سربراہ کاجا کالس کا کہنا ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے خاتمے کے لیے دو ریاستی حل کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہو سکتا۔کالس نے یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن کونسل کے اجلاس کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ ہم فلسطینی اتھارٹی اور اس کی غزہ واپسی کی حمایت کرتے ہیں ہم ہر ان بے گھر فلسطینیوں کی واپسی کی حمایت کرتے ہیں جن کے لیے غزہ ان کا گھر ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ جب وقت آئے گا، یورپی یونین بھی علاقائی کرداروں کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیرِنو کی حمایت کرے گی فلسطینیوں کو غزہ میں رہنے کے قابل ہونا چاہیے ۔ادھر برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ غزہ جنگ بندی اور دو ریاستی حل کے لیے پُرعزم ہے ۔برطانیہ کے دفتر خارجہ کے وزیر برائے افریقہ، اقوام متحدہ، دولت مشترکہ اور انسانی حقوق نے حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ میں نازک جنگ بندی کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔لارڈ رے کولنز نے جنیوا میں انسانی حقوق کی کونسل میں اپنے خطاب میں کہا کہ تنازعات اور جغرافیائی سیاسی کشیدگی دنیا بھر میں لوگوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کر رہی ہے ہم آج تیزی سے غیر مستحکم اور غیر یقینی دنیا کے پس منظر میں جمع ہوئے ہیں۔کولنز نے کہا کہ اسی لیے غزہ میں جنگ بندی کو مکمل طور پر نافذ کرنا چاہیے ہم ہر یرغمال کی رہائی اور اہم امداد غزہ تک پہنچنے کے ساتھ تنازعہ کا خاتمہ دیکھنا چاہتے ہیں جس سے دو ریاستی حل کی طرف ایک قابل اعتبار عمل شروع ہو جائے گا۔