بمنہ اور نوگام میں دو زیر تعمیر فلائی اوورز کی بروقت تکمیل اورصنعت نگرکراسنگ پر مجوزہ فلائی اوورقومی شاہراہ پر سری نگر بائی پاس کے ساتھ ساتھ ہائی وے اوراس سے جڑی سڑکوںپرٹریفک کی بھیڑ کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔ جب سے ان دومنصوبوں پرکام شروع ہوا ہے،ان کی تکمیل میں کسی نہ کسی وجہ سے تاخیر ہوئی ہے۔ لسجن میں گریڈ سپریٹر کا بھی یہی حال ہے۔چونکہ یہ زیر تعمیر اور مجوزہ منصوبے شاہراہ پر ٹریفک کی نقل و حرکت کے لئے بہت اہم ہیں، اس لئے ان کی جلد تکمیل میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔مسائل مزید دیر تک نہیں رہنے چاہئیں۔ حکام نے حالیہ جائزہ اجلاس کے دوران اس سلسلے میں ہدایات بھی دی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ لسجن گریڈ سپریٹر پر 80فیصد کام مکمل کر لیا گیا ہے۔ نوگام اوربمنہ فلائی اوور دونوں پروجیکٹوں پر 30 فیصد سے زیادہ کام مکمل ہو چکا ہے۔صنعت نگر فلائی اوور کی منظوری پہلے ہی دی جاچکی ہے جبکہ پروجیکٹ کا ڈیزائن حتمی منظوری کا منتظر ہے۔ بمنہ فلائی اوور کی تکمیل کی تاریخ مارچ 2023 مقرر کی گئی ہے جبکہ نوگام کی آخری تاریخ جنوری 2023 مقرر کی گئی ہے۔تاہم حکام کا کہنا ہے کہ نوگام میں درکار سامان کی منتقلی میں تاخیر کی وجہ سے تکمیل کی تاریخ میں توسیع ہو سکتی ہے۔ حکام کو اس بات کو یقینی بنانا چاہئے کہ منصوبے بروقت مکمل ہوں تاکہ اس مقصد کو حاصل کیا جا سکے جس کے لئے ان منصوبوں کو دردست لیاگیاتھا۔ تاخیر کی وجہ سے پہلے ہی کافی وقت ضائع ہو چکا ہے۔اُس وقت کی جموں و کشمیر حکومت نے 2018 میں بمنہ، نوگام اور صنعت نگر کراسنگ پر تین فلائی اوور بنانے کی منظوری دی تھی۔ ریاستی حکومت نے فلائی اوور کی تعمیر کے لیے مرکزی حکومت سے بھی رجوع کیا تھا لیکن اس وقت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔بعد میں نیشنل ہائی ویز اتھارٹی آف انڈیانے 2020 میں سری نگر کے ان تینوں جنکشنوں پر فلائی اوور بنانے کے لئے مرکزی حکومت سے سفارش کی تھی۔ ان پروجیکٹوں پر عمل درآمد میں تاخیر ہوتی رہی۔ آخر کار مرکزی حکومت نے بمنہ اور نوگام میں دو فلائی اوورز کے لئے منظوری دے دی اور اس سال کام شروع ہوا،تاہم صنعت نگر پروجیکٹ کے لئے کام شروع نہیں ہوا کیونکہ پروجیکٹ کا ڈیزائن ابھی تک حتمی منظوری کا منتظر ہے۔ مجوزہ صنعت نگر فلائی اوور بھی اتنا ہی اہم ہے جتنے باقی دو پروجیکٹ اہم ہیں۔ حکومت کو جلد از جلد ڈیزائن کی حتمی منظوری کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ کام فوری طور پر شروع ہو۔تاخیر سے مسافروں کو کافی پریشانی ہو رہی ہے۔ شاہراہ اور دیگر ملحقہ سڑکوں پر ٹریفک کا رش ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ٹریفک حکام نے کراسنگ کے قریب عارضی ڈائیورشن بنائے ہیں تاکہ ٹریفک کے رش کو کسی حد تک کم کیا جا سکے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تیز رفتاری سے چلنے والی گاڑیوں کی وجہ سے سڑک عبور کرنے والے پیدل چلنے والوں کے لئے موڑ خطرناک ہے۔ فلائی اوورز کے آپریشنل ہونے سے پیدل چلنے والوں کی جانوں کو لاحق خطرات کو بھی کم کیا جا سکتا ہے اور ٹریفک کو اچھی طرح سے منیج بھی کیاجاسکتا ہے ۔اسی طرح کا ایک فلائی اوور شالہ ٹینگ کراسنگ اور ایک گریڈ سپریٹر پارمپورہ بائی پاس پر بھی بننا چاہئے کیونکہ دونوں پر ٹریفک جام لگا رہتا ہے ۔شالہ ٹینگ کا بائی پاس اسلئے بھی اہم ہے کیونکہ یہ بانڈی پورہ اور بڈگام کے علاوہ شمالی کشمیر اور سرینگر کے ٹریفک کو ملاتا ہے ۔اگر یہاں فلائی اوور بنتا ہے تو بانڈی پورہ او ر زینہ کوٹ کی جانب جانے والا اور وہاںسے آنے والا ٹریفک فلائی اوور کے نیچے سے گزر کر آگے شاہراہ کو چھو لے گا جبکہ شمالی کشمیر کو جانے والا اور وہاںسے آنے والا ٹریفک آرام سے فلائی اوور سے ہوکر آگے بڑھے گا جس کے نتیجہ میں ٹریفک جام کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔امید کی جاسکتی ہے کہ سرکار فوری طور ان دو فلائی اوور ز کو بھی منظوری دے گی کیونکہ جب تک یہ دو فلائی اوور نہیں بنتے ہیں ،اُس وقت تک بمنہ ،نوگام اور صنعت نگر کے فلائی اوور زیادہ فائدہ مند ثابت نہیںہوسکتے ہیں۔ایک دفعہ جب یہ سبھی فلائی اوور بنیں گے تو یقینی طور پر شہر میں داخل ہونے والے اور شہر سے نکلنے والے ٹریفک کو راحت ملے گی جبکہ شاہراہ سے معمول کے مطابق گزرنے والے ٹریفک کو بھی لمبی قطاروں میں نہیں رہنا پڑے گا۔