رتن سنگھ پہلگامی
گنتی میں وہ پانچ لوگ تھے۔ سماجی رضاکار تھے۔ عملی طور کچھ کرنے سے پہلے انہوں نے آپس میں مشورہ کیا ۔ کچھ باتیں زور شور سے کیں تو کچھ باتیں سرگوشی میں۔اب اُن کا مقصد اُس گونگے بہرے ،بےگھر فقیر کی اصلاح کرنا تھا۔
چھائوں دار پیڑ کے نیچے بیٹھا فقیر ساری دُنیا سے بےنیاز تھا ۔ پھٹے پُرائے کمبل اُسے کے ارد گرد پھیلے ہوئے پڑے تھے ۔ کڑی دھوپ میں بھی اس نے ‘پھرن پہن رکھا تھا اور پھرن اتنا میلا تھا کہ اس کے رنگ روپ کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا تھا ۔ بس بے رنگ سا،خاک سا لگ رہا تھا جو اس کے ارد گرد دور تک دکھائی دیتا تھا ۔ جس شدت سے کڑکتی دھوپ کا احساس وہاں سے گذرنےوالے لوگوں کو ہو رہا تھا ، اُس کا فقیر کو کوئی احساس ہی نہیں تھا ۔ اُس کے پھرن کے بٹن بند تھے لیکن کوئی اُسے پسینہ پونچھتے ہوئے نہیں دیکھ رہا تھا ۔ اپنے میلے کچیلے ، نمدہ ہوئے ،بالوں والا سر گُھٹنوں میں دے کر بیٹھا رہتا تھا ۔ وہاں سے گزر نے والےلوگ اُس کی ضروریات کا اندازہ لگا کر اُسے نقد یا جنس میں ،روٹی کپڑا یا اور کوئی اشیا دے دیتےتھے۔ وہ ضرورت پڑنے پر وہ انہیں استعمال کر لیتا ۔ وگرنہ تو وہ اشیا ءاُسی طرح پڑی رہتیں۔
اس پیڑ کے ساتھ فقیر کا رشتہ ماں بیٹے یا گھر جیسا تھا ۔ اس کی گھنی چھاؤں اور بھرپور سر سبز چھوٹی بڑی شاخیں اور ٹہنیاں اس کو سہلاتیں اور آرام دیتیں۔ ان ٹہنیوں پر بہت سارے رنگ برنگے پرندے بھی رہتے تھے ، جو دن بھر کی تھکان کے بعد شام کو لوٹ آتے ۔ گاتے , غل مچاتے ، فقیر کو بھی اچھے لگتےتھے۔ اب یہ اس کے وجود کا حصّہ بن گئے تھے اور اپنے ہی بھائی بہن لگتے تھے ۔
ایک دن کچھ یوں ہوا کہ نوجوان رضاکار وہاں نمودار ہو گئے ۔ انہوں نے فقیر کو دیکھا اور رُک گئے۔ وہ ایک دوسرے کی اور دیکھنے لگے۔ اشاروں ہی اشاروں میں ایک دوسرے کو سمجھانے لگے کہ ہم تو اسی کو ڈھونڈ رہے تھے !۔۔۔
وہ پوری تیاری سے آئے تھے اور جلدی سے اپنی’’بھلائی کا کام‘‘ نپٹانا چہاتے تھے ۔ فقیر کی نظریں اُن کا تعاقب کر رہی تھیں۔
ایک نے تھیلے سے قینچی اور اُسترا نکالا اور فقیر کے بالوں پہ ٹوٹ پڑا ۔ باقی ساتھیوں میں سے کسی نے سر ، کسی نے ٹانگیں پکڑیں اور کسی نے اصلاح کا سامان سنبھالا۔ فقیر تلملا اُٹھا ۔ بڑی عاجزی اور نحیف آواز میں نہ نہ۔۔۔ مہ مہ۔۔۔ کہتارہا لیکن اُس کی ایک نہیں چلی۔ رضاکاروں نے جو چاہا وہ کر ڈالا۔ فقیر کا حلیہ ہی بدل گیا۔ اب وہ ایک جاذب نظر نوجوان دکھائی دے رہا تھا ۔ جب اس نے اپنے آپ کو ٹٹولا تو دھرتی پر سر پٹک کر رہ گیا ۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کے میلے کچیلے اور لمبے لمبے بال غائب ہو گئے تھے ۔منھ پر داڑھی کا نام ونشان بھی نہیں رہ گیا تھا۔
رضاکاروں نے اس کاپھٹاپرانا پھرن بدل کر نیا قمیض پائجامہ پہنا دیا تھا ،جو انہوں نے اپنے ساتھ لایا تھا۔
فقیر اب اُسی طرح تڑپ رہا تھا جیسے کوئی باذو کٹا کھجلانے کے لئے تڑپ رہا ہو۔ جاتے وقت رضاکار فقیر کو واپس گھرجانے کو بھی کہہ گئے تھے ۔فقیر نے ان کی دی ہوئی ہدایات کو سنا تھا یا نہیں لیکن جانےسے پہلے انہوں نےکہنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رکھی تھی۔
دِن کے بعد رات آئی، پھر دن آیا ، پہر رات آئی اور وقت کی دھارا بہتی رہی ۔ فقیر درخت کے نیچے یوں ہی پڑا رہا ۔ دیکھنے میں اب فقیر ،فقیر نہہں رہ گیا تھا ۔دیکھنے والے اسے جو بھی سمجھتے لیکن فقیر ہر گز نہ سمجھتے تھے ۔ اب اس کے کاسے میں کوئی کچھ نہ ڈالتا ۔ اس کی ضرورت کی کوئی شے اسے نہ ملتی ۔ جوق در جوق لوگ وہاں سے گزر جاتے اور فقیر بس دیکھتا ہی رہ جاتا ۔ہاں، ایک دن لوگوں نے بھی دیکھا ۔۔۔ فقیر ساکت سا پڑا مٹی کی ڈھیری بن چکا تھا اور پرندوں نے غل مچا رکھا تھا ۔
���
پہلگام، اننت ناگ کشمیر
موبائل نمبر؛ 7006803106