جسٹس اسفندیارؔ نے تیزاب حملے کا شکار ہوئی لڑکی سدؔرہ کے حق میں اپنا فیصلہ دیکر سدرہ سے مخاطب ہوکر کہا ’محترمہ سدرہ اس ملک کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ کسی تیزاب گردی مجرم کو سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ آج آپکے ساتھ انصاف ہوا ہے میرے خیال میں آپ اس فیصلے سے مطمئن ہوں گیں۔
سدرہ جس کا چہرہ تیزاب کی وجہ سے کوئلہ ہو چکا تھا ، وہیل چیئر پر بیٹھی جسٹس اسفندیار کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔ پچھلے ایک سال سے کئی ذہنی اذیتوں کے علاوہ مختلف قسم کی جراہیوں سے گزر کر وہ اور بھی کمزور ہو چکی تھی۔اس کا جسم کانپ رہا تھا جسٹس اسفندیار کے فیصلے سےجیسے اس کا حوصلہ اور بھی کم ہوگیا تھا۔ شاید وہ مجرم کو سزائے موت دینے کے حق میں نہیں تھی۔ اس کی نظر میں اتنے بڑے جرم کےلیے یہ سزاناقافی تھی۔ وہ بے ساختہ روتے اور چیختے ہوئے فریاد کرنے لگی ،ْجج صاحب سزائے موت اس کے لئے جس نے ہوس اور اہنکار کے بے لگام گھوڑے پر بیٹھ کرہاتھ میں تیزاب لے کے ایک پھول سے چہرے کو مسخ کیا اور دیکھتے ہی میری زندگی کو نہ ختم ہونے والے اندھیروں کے حوالے کر دیا۔ میں ماں اور بابا کا واحد سہارا تھی، تعلیم حاصل کرکے ایک اچھی ملازمت کر رہی تھی۔جن والدین کا میں سہارا تھی آج انکے لئے میں زندہ لاش ہی نہیں بلکہ درد مسلسل بن چکی ہوں۔مجرم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ،میرا قصور بس اتنا تھا کہ میں نے اس بندے کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کیا تھا۔ پچھلے ایک سال سے نہ صرف میرا جسم جل رہا ہے بلکہ میرا حوصلہ، ہمت اور انا راکھ ہو چکی ہے ۔ ایک سال پہلے میرے اپنے رشتہ دار مجھے انار کلی کہہ کے پکارتے تھے اور آج جب انکے سامنے آتی ہوں وہی لوگ چڑیل کہنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں ۔یہ کہتے ہوئے سدرہ رک گئی اس کے جسم میں ہمت باقی نہ رہی کہ وہ مزید بول سکے۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں اور چہرے کی ماس پیشیوں سے خون برس رہا تھا ۔
جسٹس اسفندیار ، اس کا عملہ اور عدالت میں موجود دیگرافراد سدرہ کی درد ناک حالت دیکھ کر کانپ اٹھے۔
جسٹس اسفندیار نے سدرہ سے پوچھا محترمہ آپ چاہتی کیا ہیں؟
سدرہ نے دہائی دی جج صاحب،اگر انصاف کی کرسی پر میں فائز ہوتی تو اس نامراد شخص کو سزاے موت نہ دیتی۔میں حساب برابر کرنے کے حق میں ہوں۔ جج صاحب میری خواہش ہے اس بندے کو اسی جگہ پر لے جا کر جہاں اس نے مجھ پر تیزاب پھینکا تھا،اس کے وجود پر بھی اتنی ہی مقدار میں تیزاب پھینک دیا جاے جتنی مقدار میں اس نے مجھ پر تیزاب پھینکا تھا۔ کوئی اس کی مدد کو نہ آئے ، اردگرد کے سارے لوگ ویسے ہی تماشائی بنے رہیں جس طرح مجھ پر تیزاب پھینکنے پر لوگ میرے تڑپتے وجود کا بے دردی سےنظارہ کرکے ویڈیو بنا رہے تھے۔تیزاب کے جہنم میں جل کر جب یہ بندہ ہسپتال پہنچے تو کوئی ڈاکٹر اس کے علاج کے لئے تب تک نہ آئے جب تک پولیس اس کی اجازت نہ دے، بالکل اسی طرح جس طرح میرے ساتھ ہوا تھا۔ جج صاحب میں چاہتی ہوں کہ تیزاب سے جھلس کر یہ بھی میری طرح جئے اور زندگی کو ترسے۔ میں اپنے منہ تک ایک نوالہ پہنچانے کی حالت میں نہیں ہوں۔ ہر چھوٹی بڑی حاجت کے لئے مجھے لوگوں کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے۔
درد بھری چیخ کے اتھ سدرہ نےکہا ’جج صاحب ، میری اس حالت کے ذمہ دار شخص کے لیے صرف سزائے موت کافی ہو سکتی ہے کیا؟ جب کہ میں ایک پل میں ہزار موت مرتی ہوں،اس شخص کے لئے بس ایک موت ۔ جج صاحب آپ بتائیں کیا یہ واقعی میرے ساتھ انصاف ہے؟
اس نے مزید کہا کہ جب تک یہ تیزاب گردی مجرم اس کرب و درد سے نہ گزرے جس سے میں گزری ہوں تب تک اس کو احساس نہیں ہوگا کہ اس نے کتنا بڑا جرم کیا ہے۔یہاں آنے سے قبل مجھے لگتا تھا کہ یہ شخص پچھتاوے کی آگ میں جل رہا ہوگا لیکن ابھی جب میں آپ کی عدالت میں داخل ہو رہی تھی تو یہ بندہ میری طرف دیکھ کر اپنی ترچھی نظر اور زہریلی مسکراہٹ سے مجھے یہ سمجھا رہا تھا کہ’ مجھے جو کرنا تھا میں نے کیا، تم کچھ بھی کرلو میں نے تم کوکسی لائق نہیں چھوڑا، میں جیت گیا اور تم ہار گئی‘۔
عدالت میں موجود افراد سدرہ کی حالت دیکھ کر اظہار افسوس کر رہے تھے ۔
جسٹس اسفندیار اپنے اس فیصلے اور سدرہ کے ردعمل کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک سدرہ وہیل چیئر سے زمین پر گر گئی۔ سب لوگ جمع ہو گئے دیکھا تو سدرہ کی ٹوٹتی آوازہمیشہ کے لئے بند ہوگئی تھی۔
���
وزیر باغ ، سرینگر