Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

فعال وسرگرم خواتین اصلاح کار

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 12, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
37 Min Read
SHARE
    خواتین انسانی معاشرہ کا اہم اور لازمی حصہ ہیں اور یہ سماج کا نصف حصہ بھی کہلاتا ہے ۔ خواتین کے بغیر صالح اور صحت مند ومتوازن سماج کا کوئی تصور نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ فی لواقع بنت حوا معاشرہ میں ریڈھ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ معاشرہ عورت کے فطری کردار اور شراکت کے بغیر ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔ جدید تہذیب نے عورت کو اس کے اصل اور فطری کردار سے محروم کر کے اس کو صرف ایک شئے(Comodity) کی حیثیت دے رکھی ہے ۔ اس کے برعکس اسلام نے عورت کو نہ صرف اخلاقی حیثیت سے بلکہ ہر معاملہ میں اونچا درجہ دیا ہے اور معاشرہ میں اس کا رول بھی متعین کیا ہے ۔ ان ہی تعلیمات کی بنیاد پر دور نبوت اور خلفائے راشدین کے دور میں خواتین نے ہر معاملے میں نہایت اہم رول ادا کیا ہے ۔آج بھی دین پسند خواتین داعیانہ جذبہ سے سماج کی فلاح و بہود کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ زیر نظر مضمون میں عالم اسلام کی چند متحرک خواتین کا تعارف پیش کیا جارہا ہے جو مختلف میدانوں میںداعیانہ کردارادا کرنے میں مصروف ہیں ۔ 
ایون ریڑلی 
ایون ریڑلی(Yvonne Ridley) ۲۳ اپریل ۱۹۵۸ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئیں ۔وہ دور حاضر کی معروف برطانوی صحافی،تجزیہ نگار اور سماجی کارکن ہیں ۔ وہ ستمبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان میں رپوٹنگ کرنے کے لئے گئی تھیں ۔لیکن وہاں طالبان نے انہیں پکڑ کر قید کیا اور دس دن تک وہ ان کے قید میں رہیں ۔ وہاں انہیں طالبان کی سادہ اور مومنانہ زندگی کو قریب سے سمجھنے کا موقع ملا ۔ان دس دنوں میں ان کی زندگی کا کایا ہی پلٹ گیا اور ان یہی دس دن ان کے قبول اسلام کا ذریعہ بنیں ۔طالبان سے رہائی کے بعد انھوں نے قرآن مجید کا گہرائی سے مطالعہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام میں عورت  سے متعلق اسلامی تعلیمات کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا ۔ اسلام کامطالعہ اور غور و فکر کرنے کے بعد اس نے اعلان کیا کہ اسلام ہی وہ واحد دین ہے جس نے عورتوں کو نہ صرف تحفظ بلکہ سب سے زیادہ حقوق بھی دئیے ہیں۔ انھوں نے ایک کتاب بھی لکھی جس کا نام In The Hands of Taliban  ہے جس میں یہ پوری روداد موجود ہے ۔انھوں نے جون ۲۰۰۲ ء میں اسلام کو گلے لگایا اور نام مریم رکھا ۔ اس روح پرور کیفیت کے بعد وہ کہتی ہیں کہ’’ میں خدا کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ میں طالبان کی قید میں تھی ،اگر کسی اور قوم کے قید میں ہوتی تو میرا حال گونتا ناموبے اور ابو غریب جیل کے قیدیوں جیسا ہوتامجھے اسلام کی دشمنی افغانستان لے گئی مگر اسلام میری آخری تمنابن گیا ‘‘۔ایون ریڑلی نڈر اور بے باک صحافی ہیں وہ خطرات میں جینے کا بھرپور سلیقہ رکھتی ہیں ۔ وہ فلسطینی کازکی نہ صرف ایک حمایتی بلکہ عالم اسلام کے نازک انسانی مسئلہ پر مسلسل لکھ رہی ہیں ۔ اس کے علاوہ عالم اسلام میں جہاں بھی تشدد اور مظالم ہو رہے ہیں اس کے خلاف بھی زور دار طریقہ سے اپنی صدا بلند کررہی ہیں ۔ موصوفہ صیہونیت ، مغربی میڈیا اور برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر بے لاگ د تنقید بھی کرتی رہتی ہیں ۔ خواتین کے خلاف تشدد اور اور ان کے حقوق بھی ان کی تحریروں کا موضوع ہے ۔
ڈاکٹرانگرڈ مارٹسن 
انگرڈ ماٹسن ۲۴ اگست ۱۹۶۳ ء میں کنگسٹن کناڈا میں پیدا ہوئیں ۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کتھلک اسکول میں حاصل کی ۔ اس کے بعد فلسفہ اور فائن آٹس کی تعلیم کناڈا کی واٹرلو یونیورسٹی سے حاصل کی ۔ اسی دوران انھوں نے قرآن کا مطالعہ کیا اور زندگی میں پہلی بار خدا کاصحیح تـصور ملا ۔ وہ کہتی ہیں کہ :
"An awarness of God for the first time  since i was very young "    اس کے بعد مارٹسن نے ۱۹۸۷ء میں اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے بعد ۱۹۹۹ ء میں شکاگو یونیور سٹی سے پی۔ ایچ ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۲ ء تک انہوں نے ہارٹ فورٹ سمینری میں اسلامیات اور مسلم عیسائی روابط میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔۲۰۰۵ء سے ۲۰۱۰ ء تک آل البیت انسٹی ٹیوٹ میں فیلو کی حیثیت سے تھیں ۔موصوفہ کئی علمی ، فلاحی اور سیاسی اداروں کی رکن رہ چکی ہیں ۔امیریکہ میں ایک معروف مسلم تنظیم  Islamic Sociaty of North America  کی نائب صدر پھر اس کی صدر کی حیثیت سے بھی ذمہ داری ادا کر چکی ہیں ۔ وہ امریکہ میں مذاہب کے مکالمہ پر یقین رکھتی ہیں اور اسلام اور عیسائیوں کے درمیان مشترکہ باتوں کو ابھارنے پر بھی زور دیتی ہیں جو امریکہ میں مسلمانوں کو اپنا دینی تشخص  قائم رکھنے کے لیے نہایت ضروری ہے ۔ ماٹسن خواتین کے مسائل کے تعلق سے بھی متحرک ہیں ۔ وہ گھریلو تشدد اور دیگر جرائم کے خلاف بھی کام کر رہی ہیں ۔ قرآن پر ان کی ایک معروف کتاب ہے جس کا نام : The Story of the Quran : its history and place in muslim life .  جس میں انھوں نے قرآنیات پر چند نئے گوشوں کو اجاگر کیا ۔اس کے علاوہ ان اور بھی کئی کتابیں منصہ شہود پر آچکی ہیں ۔
   ڈاکٹر زینب العلوانی 
ڈاکٹر زینب العلوانی معروف اسلامی مفکر اورفقیہ ڈاکٹر طہٰ جابر العلوانی کی بیٹی ہیں ۔ ڈاکٹر زینب العلوانی معروف اسلامی اسکالر ، محقق، مقرر اور متحرک خاتوں ہیں ۔ انھوں نے اصول فقیہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے وہ ہارورڑ یونیورسٹی میں اسلامیات کے بانی ڈائریکٹر  ہے ۔ اس کے علاوہ وہ کئی اسلامی ، اصلاحی اداروں سے وابستہ ہیں ۔ موصوفہ وہ پہلی عالمہ ہیں جو Fiqah Council of North  Amarica   کی رکن اور اس کے نائب چیئر پرسن رہ چکی ہیں ۔ان کا تحقیقی میدان قرآنیات ، فقہ اور خواتین ایشوز ہیں ۔ انھوں نے  امریکہ کے کئی کالجوں میں اسلامیات اور عربی کی استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔ خاندانی نظم و نسق ، خواتین اور گھریلو تشدد پر ان کی اہم تحریریں منصہ شہود پر آچکی ہیں۔ وہ اس وقت ، اسلامی فقہ ، خواتین اسلامی اسکالرس اور اسلامی خاندان کے قوانین پر کام کر رہی ہیں ۔
 شمیمہ شیخ :
  شمیمہ شیخ جنوبی افریقہ کی سب سے معروف مسلم صحافی ، حقوق نسواں کی روح رواں اور متحرک خاتوں تھیں ۔ انھوں نے ۱۹۸۴ ء میں  عربی اور سائیکولوجی سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ طالب علمی ہی سے وہ متحرک تھیں ۔ ان کا تعلق مختلف ملی ، اصلاحی اور سماجی تنظیموں سے رہا ہے ۔ وہ ۱۹۸۹ ء میں افریقہ کے ایک مسلم اخبار ’’القلم ‘‘ میں کام کرنا شروع کیا ،اس دوران انھوں نے نسلی تعصب اور  Gender System   پر لکھنا شروع کیا ۔ ۱۹۸۳ء میں نوجوانوں کی ایک تنظیم کی چیئر پرسن بھی منتخب ہوئیں ۔ ان ہی دنوں انھوںنے خواتین کا مساجد میں تراویح پڑھنے کی مھم اٹھائی ۔انھوں نے اسلامی فیمینزم کی صحیح تعبیر پیش کی اور جنوبی افریقہ کے مسلم پرسنل لاء بورڑ کے قیام میں بھی اہم رول ادا کیا ۔اس کے علاوہ وہ متعدد فلاحی اور دینی اداروں سے بھی وابستہ ہیں ۔
ڈاکٹر دہالیہ مجاہد 
  ڈاکٹر دہالیہ مجاہد مصری نژاد ایک امریکی اسکالر ہیں ،انھوں نے کیمیکل انجیئرگ میں گریجویشن کی اور وسکونیسن یونیوررسٹی سے عربی سے پڑھا اس کے بعد انھوں نے پٹسبرگ یونیورسٹی سے ایم ۔ بی ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔ وہ Institute for Social Policy and Understanding     ریسرچ شعبے کی ڈائیریکٹر ہیں جو امریکی مسلمانوں  مسائل کو زیر بحث لاتے ہیں ۔ وہ ۲۰۰۶ ء سے ۲۰۱۲ء تک  Gallup Center for Muslim Studies   چئیر پرسن بھی رہ چکی ہیں ۔ موصوفہ باراک ابامہ کے دور حکومت میں Faith -Based and  Neighborhood   Partnerships      کی مشیر کے عہدے پر بھی تعینات رہیں۔ انھوں نے امریکی مسلم انگیج منٹ پر بھی لائق تحسین کام کیا ہے ، وہ کئی تنظیموں اور اداروں کی بورڑ ممبر اور قائد ہیں ۔وہ امریکی یونیورسٹی آف بیروت کی سینئر پبلک پالیسی اسکالر بھی ہیں ۔ وہ کلچرل تنوع اور تہذیبوں کی تفہیم پر بھی کام کر رہی ہیں ۔ Arabian Business    جیسے موقر رسالے نے انہیں  ۲۰۱۰، ۲۰۱۱، ۲۰۱۲ ،۲۰۱۳ اور ۲۰۱۴  میں سب سے موثر عرب خاتون قرار دیا ۔ انھوں نے جان ایس پوزیٹو کے ساتھ مل کر who speaks for islam : what a billion muslims think     جس میں انھوں نے ۳۵ مسلم ممالک کے مسلمانوںکو نٹروز کر کے ان کی فکری نمائندگی کو ابھاراہے ۔  انھوں نے خواتیں کے مسائل  پر توجہ بھی  دی ۔ان سے جب ایک مرتبہ ایک صحافی نے حجاب پہنے پر سوال کیاکیوں کہ وہ حجاب کو جہالت کی علامت سمجھتا تھا تو انھوں نے یہ تاریخی جواب دیا کہ ’’پہلی صدی میں انسان ننگے تھے  اور ان کو کپڑے دریافت کرنے میں وقت لگ گیا اور جو کچھ میں پہنتی ہوں تو یہ انسانی ترقی کا عروج ہے اور یہ backwordness   کی علامت نہیں ہے بلکہ ننگا پن  قدامت پسندی اور پہلی صدی کی علامت ہے ۔ ننگا پن اگر ترقی کی علامت ہے تب تو جانور انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ ہے ۔ ـ
  یٰاسمین مجاہد 
 یاسمیں مجاہد ایک پرجوش مقرر ، اسکالر ، صحافی اور مصنف ہیں۔سائیکالوجی سے گریجویشن کرنے کے بعد wisconsin  madison   یونورسٹی سے جرنلزم اور ماس کمینوکیشن میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی ۔اس کے بعدانھوں نے اسلامیات کی تعلیم حاصل کی اور کاڑینل اسٹرچ یونورسٹی میں پڑھانا شروع کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ In Focus News میںاسلامیات کے شعبے میں مضمون نگا ر کی حیثیت سے کام کرتی رہیں ۔ وہ ایک بین الاقوامی سطح کی مقرر ہیں او ر ان کی تقاریر سوز و گداز اور بصیرت افروز ہوتی ہیں اس کے علاوہ وہ مختلف ویب سائٹس کے لئے لکھتی ہیں۔ yasminmagahed.com    کے نام سے ان کی اپنی ویب سائٹس ہے جس پر ان کی تقاریر اور مضامین دستیاب ہیں ۔ان کی ایک کتاب کا نام   ـ"Reclaim Your Heart" ہے جس کے کئی اڈیشن اب تک شائع ہوئے ہیں ۔
  ڈاکٹر فرحت ہاشمی 
   فرحت ہاشمی ( پیدائش: ۱۹۵۰) سرگودہرا پاکستان کے ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ ان کے والد معروف حکیم اور جماعت اسلامی سرگودہرا کے امیر تھے ۔ شایدا سی وجہ سے موصوفہ مولانا مودودی اور تفہیم القران سے متاثر تھیں۔ ڈاکٹر ہاشمی نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں ایم ۔ اے کی سند حاصل کی ۔ اس کے بعد گلسکو یونورسٹی (Glasgow Univercity )کناڈا سے پی ۔ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔دوران تعلیم ہی انھوں نے خواتین کے لئے قرآنی کلاسس شروع کی ۔ وہ انٹرنیشنل یونیور سٹی اسلام آباد میں پہلے لکچرر اور پھر اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے تعینات رہیں ۔ بعد میں اس کو خیر باد کہہ کر اپنا پورا وقت قرآنی تعلیمات کو عام کرنے میں لگا دیا ۔ ان کے دروس اور لکچرس قرآن و حدیث ،سیرت رسول ﷺ اور صحابہ و صحابیات کے واقعات سے مزین ہوتے ہیں ۔انھوں نے پاکستان میں خواتین  کے دینی مسائل کے تعلق سے نمایا ں رول ادا کیا ۔ابتدا میں ان کا کام بڑے بڑے عہدوں پر فائزسرکاری آفسروں اور ملازمین کی بیگمات تک محدود تھا لیکن بعد میں اس محدودیت کو ختم کر کے خواتین کے ہر طبقہ میں کام کرنے لگیں ۔ڈاکٹر ہاشمی پاکستان میں مختلف جگہوں پر لکچرس اور دروس قرآن کی مجلسیں منعقد کر رہی ہیں ۔انھوں نے خواتین اور لڑکیوں کی دینی تعلیم و تربیت کے لئے اسلام آباد میں ایک دینی ادارہ ’’ الہدیٰ انٹرنیشنل اسکول ‘‘  کے نام سے قائم کیا ۔ یہ ادارہ ۲۶ ستمبر ۱۹۹۶ء سے کام کار رہا ہے ۔ اس میں رگیولر اور فاصلیاتی طور ایک سالہ ڈپلومہ کورس ان اسلامک اسٹڈیز ہوتا ہے جس میں ملک اور بیرون ملک کی خواتین اور لڑکیوں کی بڑی تعداد مستفید ہورہی ہیں ۔ الہدیٰ لڑکیوں کی دینی تعلیم کے لئے ایک جدید ادارہ ہے ۔ان کی بہن نگہت ہاشمی بھی ایک بہترین اسکالر ہیں ۔
ڈاکٹرزینت کوثر :
زینت کوثر نے ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی تھیں ۔اس کے بعد بی ۔ اے کی تعلیم عثمانیہ یونیور سٹی حیدر آباد سے اور پولیٹیکل سائنس سے ایم ۔ اے کی ڈگری شری وینکٹیش وارا سے حاصل کی۔ اس کے بعد ۱۹۹۰ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے پی۔ ایچ ۔ ڈی کی سند حاصل کی ۔ ان کا اکیڈمک کیرئیر بہت شامدار رہا ہے ۔ مغرب اور اسلام کی سیاسی فکر ، مغرب کی جدید سیاسی نظریات ،تحریک آزادی نسواں اور اس کا تنقیدی جائزہ اور جدیدیت ان کی تحقیق کا خاص میدان ہے ۔ ان کے شوہر ڈاکڑممتاز علی بھی ایک معروف دانشور ہیں۔ زینت کوثر ۱۹۸۷ء سے ملیشیا یونیورسٹی  IIUM  سے وابستہ رہیں ۔اور ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۵ء تک اسی یونیورسٹی میں پولیٹکل سائنس میں پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں ۔انہیں بین الاقوامی یونیورسٹی ملیشیا نے Quality Research Award اور Excellent Researcher    کے ایوارڈ سے بھی نوازا ۔ انھوں نے متنوع موضوعات ایک درجن سے زیادہ کتب اور سو سے زیادہ مقالات و مضامین لکھیے ہیں ۔اور آج بھی وہ علمی کاموں میں مصروف عمل ہیں ۔
  زینب الغزالی 
زینب الغزالی ۲ جنوری ۱۹۱۷ ء میں قاہرہ کے شمال میں ضلع دقہیلہ کے دور دراز گاوں میں پیدا ہوئیں گھر سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سرکاری اسکول میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد انھوں نے ازہر یونیور سٹی کے معروف اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ۔ قدیم و جدید علوم میں انہیں کافی دسترس حاصل تھی ۔ زینب الغزالی دور طالب علمی ہی سے خواتین اور طالبات میں پر جوش اور شعلہ بیان خطیبہ کی حیثیت سے مشہور تھیں اور خواتین کی مختلف تنظیموں سے وابستگی رہیں ۔ ۱۹۳۷ء میں انھوں نے خواتین کی ایک تنظیم کی بنا ڈالی جس کو بعد میںانھوں نے حسن البنا ء ؒ کے کہنے پر اخوان میں ضم کر دی۔آپ ایک بے باک داعیہ تھیں۔ خواتین میں اسلامی بیداری پیدا کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ گھر ہو یا جیل کی کال کوٹھریاں ، بازار ہو یا شاہراہیں غرض کہ ہرجگہ خواتین کو نہ صرف اسلام کی طرف بلاتی بلکہ تعلیم تربیت کا انتظام بھی کرتی تھیں ۔آپ قرآنی آیتوں کی ایک عملی تفسیر تھیں ۔ مصری حکومت ان کی ہر بات سے خائف تھی۔ انور سادات نے اس عظیم خاتون کو ۶ سال تک جیل کی کال کوٹھریوں میں مقید کر رکھا تھا ۔ موصوفہ ایک بہترین مصنفہ بھی تھیں ان کی چند اہم کتابوں کے نام یہ ہیں :(۱) ایام حیاتی (۲)نظرات فی کتاب اللہ (۳) غریرۃ المراۃ مشکلات الشباب والفتیات (۴) الی بنتی (۵)تاملات فی الدین و الحیاۃ ۔
 ڈاکٹرتوکل کرمان 
  توکل عبد السلام خالد کرمان ( پیدائش:۱۹۷۹)ایک بے باک یمنی صحافی ، انسانی حقوق کی علمبردار،سیاست داںہیں ۔ اس کے علاوہ وہ لاصلاح سیاسی پارٹی کی رکن ہیں جو یمن میں الاخوان المسلمون کی زیر سرپرستی کام کرتی ہے ۔ انہوں  نے صنعاء یونیورسٹی سے سیاسیات میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ کو University of Alberta in Canada  بین الاقوامی قانون میںڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی گئی۔ توکل کرمان ایک باہمت ، متحرک اور حوصلہ مند خاتون ہیں جنہوں نے یمن میـں ۳۳  سال سے چل رہی آمریت کے خلاف حق کی آواز بلند کی جس میں وہ پوری طرح سے کامیاب بھی ہوگئیںـ ۔ موصوفہ دوسری مسلم خاتون ہیں جنہیں ۲۰۱۱ء میں نوبل انعام سے نوازا گیا ۔ انھوں نے ۲۰۰۵ ء میں ایک این ۔جی ۔او"women Journalists without chains"  کی بنیاد ڈالی ۔ ۲۰۱۱ ء سے ان کا کام کھل کر لوگوں کے سامنے آیا جب انھو ں نے عرب بہاریہ میں نمایاں رول اد ا کیا ۔یمن میں وہ "Irion Women "اورMother of the Revolution " جیسے ناموں سے جانی جاتی ہیں ۔ ۲۰۱۱ ء میں انہیں نوبل جیسا بین الاقوامی ایواڑ سے نوازا گیا ۔وہ اس وقت دنیا کی دوسری مسلم خاتون ہیں جسے یہ انعام دیا گیا ہے۔ عرب بہاریہ میں ان کا رول قابل ذکر ہیں ۔ موصوفہ ہمیشہ شرعی لباس پہنتی ہیں اور لباس کے تعلق سے لکھتی ہیں کہ ابتدائی زمانہ میں انسان تقریبا برہنہ زندگی گزارتا تھا ،جیسے جیسے اس کے فہم دو دانش میں اضافہ ہوتا گیا ، اس نے لباس پہنا شروع کیا ۔ میرا حجاب ایک مسلمان خاتون کی وسعت اور اسلامی فکر و تہذیب کی ان اعلی اقدار کو ظاہر کرتا ہے جنہیں انسان نے حاصل کیا ہے ۔عورت کا حجاب کسی زوال کی علامت نہیں بلکہ عروج کی علامت ہے جب کہ عریانیت برہنگی اور بے حیائی تنزلی کی علامت ہے‘‘۔ موصوفہ اسلامی رنگ و تہذیب اختیار کرنے والوں اور حجاب پسندوں سے مخاطب ہوکر کہتی ہیں کہ’’ عورت کا حجاب کسی تنزلی یا پستی کی نہیںبلکہ ترقی کی علامت ہے کیوں کہ آج کی بے حیائی یہ ظاہر کرتی ہے کہ انسان پھر اپنے ابتدائی قدیم زمانہ کی طرف رواں دواں ہے جس وقت لباس کا کوئی تصور نہیں تھا ۔
 ڈاکٹر عذرا بتول 
  ڈاکٹر عذرا بتول لاہور میں ایک دین دار اور علمی گھرانے میں ۱۹۵۹ء کو پیدا ہوئیں ۔ ابتدائی تعلیم و تربیت گھر ہی میں حاصل کی۔ انھوں نے ۱۹۷۳ء لاہور کالج سے ایف ۔ایس ۔سی کر لی اور لاہور ہی سے مڈیکل کی تعلیم مکمل کی ۔اسلامیات کا انھوں نے اچھا خاصا مطالعہ کیا ۔اس کے علاوہ منصور ہ سے تفہیم القرآن کا کورس بھی مکمل کیا۔ ڈاکٹر عذرا صاحبہ زمانہ طالب علمی ہی سے نہایت فعال تھیں ۔ وہ اسلامی جمعیت طالبات صوبہ پنجاب کی ناظمہ کے عہدے پر بھی فائز تھیں اور جمعیت کی مرکزی مجلس مشاورت کی رکن بھی رہی تھیں ۔خواتین میں درس و تدریس اور وعظ و نصائح کا فریضہ بھی انجام دیتی تھیں ۔ اس کار خیر میں وہ نہایت متحرک رہتی تھیں ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ وہ دس بچوں کی ماں تھیں لیکن بچوں کی تعلیم تربیت کرنے اور امور خانہ داری میں کوئی کوتاہی نہیں کرتی تھیں  ۔ گھریلو مصروفیت کے باوجود تبلیغی و دعوتی اور رفاہی کاموں میں متحرک رہتی تھیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ ہر معاملہ میں ایک کامیاب خاتون تھیں اور زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین کے لئے مثال قائم کی ہے ۔ وہ نہ سماج میں غریب طبقوں کی بھر پورمالی معاونت کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا مفت علاج کرتی تھیں ۔غرض کہ وہ رفاہ عامہ کی سرگرم کارکن بھی تھیں ۔ زندگی نے زیادہ دیر تک وفا نہیں کی اور صرف ۴۴ سال کی عمر میں ایک کار حادثے کی شکار ہوکر اس فانی دنیا سے چل بسیں ۔  
 نہال الزہاوی : 
نہال الزہاوی ۱۹۳۴ ء میں عراق کے شہر بغداد میں پیدا ہوئیں ۔ آپ کے والد کا نام محمد سعید الزہاوی  ہیں جن کا شمار عراق کے مشہور ومعروف علماء اور فقہا میں ہوتا ہے ۔ نہال الزہاوی نے تعلیم کے بیشتر مراحل اپنے والد صاحب سے طے کیں ۔جن میں فقہی و شرعی علوم قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ آپ نے بغداد کے معروف دینی درسگاہ ’’دارالمعلمات العلیہ ‘‘ سے بھی تعلیم حاصل کی ۔ نہال الزہاوی ایک متحرک داعیہ تھیں ۔ انھوں نے طالبات اور خواتین  میں اسلامی بیداری پیدا کرنے کے لیے ’’الاخت الاسلامیہ ‘‘ کی بنیاد ڈالی ۔ جس کی تربیت یافتہ خواتین  نے ہر جگہ دینی بیداری کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔ آپ ہر ہفتہ درس قرآن دیا کرتی تھیں جس میں خواتین اور طالبات کی بڑی تعداد شرکت کرتی تھیں ۔  ہر وقت خواتین کی رہنمائی کرنا اپنا سب سے اہم دینی فریضہ سمجھتی تھیں اور خواتین بھی ان  سے ہر معاملہ میں فتویٰ لیتی تھیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ موصوفہ ’’مجلہ التربیہ الاسلامیہ ‘‘ میں مسلسل مضامین لکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر تصنیفی وتحقیقی کام بھی کرتی رہتی ہیں۔ آپ نے پوری زندگی اسلام کی اشاعت کے لیے وقف کر رکھی تھیں ۔ ۱۷ فروری ۲۰۰۵ ء میں مجاہدہ خاتون  ۶۹ سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملیں ۔ 
ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب
ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب خواتین کے خیمہ سے ایک نامور عالمہ اور محققہ تھیں۔ ڈاکٹر عطیہ معروف عالم دین علامہ خلیل عرب کی سب سے چھوٹی صاحبزادی تھیں۔ ان کی پیدائش ۲۷؍دسمبر ۱۹۴۳ء میں لکھنو (یوپی) میں ہوئیں۔ عربی زبان وادب اور قرآن وحدیث کی ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ میٹرک، انٹر اور بی۔اے کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے عربی سے ایم اے کیا اس کے بعد اسی یونیورسٹی میں لیکچرر کی حیثیت سے کام کیا اس کے بعد انہوں نے ’’خواتین کی معاشرتی زندگی اور عربی شاعری‘‘ کے عنوان پر Phd کی ڈگری حاصل کی۔ موصوفہ عالمہ ہونے کے ساتھ ساتھ نثرنگار اور شاعرہ بھی تھیں۔ انہوں نے ۱۶؍سال کی عمر میں ایک کتاب لکھیں۔ درس وتدریس کے ساتھ ساتھ عورتوں کی فلاح وبہبود کے لئے بھی کام کرتی تھیں نیز عربی اور اردو میں مقالات ومضامین لکھتی رہتی تھیں وہ ایک سرگرم خاتون تھیں ۔۲۰۰۰ء  میں دبئی کے ولی عہد نے عطیہ مرحومہ کو ان کی خدمات پر سونے کی شیلڈ عطا کی تھی۔ ا ن کا انتقال ۴؍جنوری ۲۰۱۶ء کو دبئی میں ہوگیا۔ان کا ایک مشہور شعر ہے۔
میں نے موجوں سے الجھتے ہوئے جینا سیکھا          کیوں نظر آگئے تم آج کناروں کی طرح  
ڈاکٹر سمیحہ راحیل :
  ڈاکٹر سمیہ راحیل ۲۴ اپریل ۱۹۶۵ء خیبر پختو خان میںایک مذہبی اور تحریکی میں پیدا ہوئیں ۔ آپ سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی بیٹی ہیں ۔انھوں نے ایف ۔ ایس ۔ سی جناح کالج پشاور سے اور گریجویشن پنجاب پونیورسٹی سے اور ماسٹرس کی ڈگری بلوچستان سے حاصل کی اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے  Family  Institution     in   Islamکے موضوع پر مقالہ لکھ کر پی ۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ آپ بچپن ہی سے متحرک تھیں اور تعلیمی اداروں میں طلبہ و طالبات کی سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں ۔ موصوفہ اسلامی جمعیت طالبات سے فارغ ہوکر ۱۹۸۶ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کر لی اور ۱۹۹۱ء میں جماعت اسلامی کی خواتین ونگ کی رکن بن گئیں۔ ۱۹۹۵ء میں بیجنگ میں خواتین کے ایشوز پر جو انٹرنیشنل کانفرس منعقد ہوئی اس میں ڈاکٹر صاحبہ نے نہایت کلیدی رول ادا کیا ۔ جماعت اسلامی نے انہیں ۱۹۹۵ء میں شعبہ خواتین کی فارین افئیرزکے ڈائریکٹر کی ذمہ داری سونپ دی ۔ ڈاکٹر صاحبہ انٹر نیشنل مسلم ویمن یونین کی بانی ارکان میں سے ہیں۔ آج یہ یونین ۶۰ سے زیادہ ممالک میں مسلم خواتین کے ایشوز پر کام کر رہی ہے ۔  اس کے علاوہ آ پ جماعت اسلامی پاکستان کے ویمن اینڈ فیملی کمیشن کی صدر بھی ہیں ۔ سمیحہ صاحبہ ہر وقت رواں دواں رہتی ہیں ۔ خواتین کے ایشوز، خواتین کی کانفرنسوں میں شرکت اور تقریریں کرنا ، خواتین کے سیاسی امور کی نگرانی اور مختلف دینی داروں کو رہنمائی کرنے کے علاوہ آپ تصنیفی کام بھی کرتی رہتی ہیں ۔
اینا گیمزیٹوا
اینا گیمزیٹواایک ۴۶ سالہ متحرک روسی خاتون ہیں ۔وہ ایک عملی مسلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نامور روسی مفتی احمد عبدللہ کی اہلیہ بھی ہیں ۔ وہ روس میں حجاب کی ایک symble مانی جاتی ہیں ۔ اینا گیمزیٹواکا تعلق روسی وفاق کی جمہوریہ داغستان سے ہے ۔وہ پیشہ کے لحاظ سے صحافی ہیں ۔وہ روس کے سب سے بڑے اسلامی میڈیا گرپMuslim Are You''  " کی ایڈیٹر ان چیف ہیں ۔اس کے علاوہ وہ انسانیت کی خدمت کے لیے کئی فلاحی ادارے بھی چلارہی ہیں۔انھوں نے روس مختلف موـضوعات پر اسلامی لٹریچر تیار کیا ہے ۔اینا گیمزیٹوا نے  اپنی کمال جرات سے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان خواتین اپنی تعلیم اور شعور کے ساتھ کوئی بھی میدان سر کرنے کے قابل ہیں اور روس جیسے اسلام مخالف معاشرے میں ان کا مسلمان عورت ہونا مقصد کی راہ میں رکاوٹ کا سبب نہیں بن سکتی ۔روس جو ایک عرصہ سے اسلام اورمسلمانوں سے خوف زدہ ہے اوروہاں ہر طرف اسلام اور مسلمانوں کو دہشت پسند تصور کیا جاتا ہے ۔روس میں دہشت گردکاروائیوں کا ذمہ دارمسلمانوں کو ہی ٹھرایا جاتا ہے اور دہشت گردی سے متعلق ہر سرگرمی مسلمانوں کی طرف منسوب کی جاتی ہے ۔ اس کے باوجود وہ مغرب میں اسلام کی احیائے نو کے لیے پر عزم اور پر امید ہیں ۔وہ آج کل سیاسی سرگرمیوں میں بھی متحرک ہیں اور ان کا متحرک مسلم خاتون ہوناروس میں شر پسند عناصر کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ 
   نادیہ یٰاسین  
   نادیہ یسین دسمبر ۱۹۵۸ء میں کاسابلانکا ،مراکو میں پیدا ہوئیں ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم فرانکوفین میں حاصل کی جس کے بعد پولیٹکل سائنس سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی ۔انھوں نے پندرہ سال ہی کی عمر سے اسلامی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا۔ وہ اخوانی رہنماووں کے افکار سے بے حد متاثر نظرآئی ہیں۔ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد وہ کئی سال سال تک صحافت میں جڑی رہیں ۔ ان کے والد عبد السلام ایک معروف استاد اورماہر تعلیم تھے ۔ انھوں نے مراکو میں ’’جماعۃ العدل ولاحسان ‘‘کی بنیاد ڈ الی اور اس کے خواتین ونگ کی قیادت اپنی ہونہار بیٹی نادیہ یٰسین کے ہاتھوں میں دے دی ۔ نادیہ بھی اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں ۔وہ مراکو میں خواتین کے خیمے سے ایک نامی گرامی شخصیت ہیں ۔ان کا ماننا ہے کہ کامیاب تحریک کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ فرد کی نہ صرف روحانی ضرورتوں کو پورا کرے بلکہ اس کے جسمانی ضرورتوں کی بھی تکمیل کرے ۔انھوں نے مراکو میں خواتین کے مسائل پر مثبت لیکن زوردار بحث چھیڑ رکھا ہے ۔
ان کا یہ مشہور قول ہے کہ:You can call me a feminist if you like .   But  i  speak for  a    different  culture , the islamic one . 
 ڈاکٹر رخسانہ جبین :     
    ڈاکٹر رخسانہ جبین ایک متحرک داعی ہیں ۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر (گائیناکالوجسٹ) )ہیں ۔ڈاکٹر صاحبہ ویمن اینڈ فیملی کمیشن  پاکستان کی چئیر پرسن بھی ہیں اور جماعت اسلامی پاکستان ن کی سابق سیکریٹری جنرل (قیمہ ) ہیں ۔اس کے علاوہ جماعت اسلامی میں مختلف عہدوں عہدوں پر فائز رہ کر داعیانہ ذمہ داریاں انجام دیں ۔۱۹۸۳ ء میں اسلامی جمعیت طالبات کی رکن بنی اور ۱۹۸۹ء میں جماعت اسلامی کی رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا ۔ اس کام میں ان کا شوہر بھی تعاون دے رہا ہے اور وہ بھی جماعت اسلامی کے رکن ہیں ۔ ڈاکٹر صاحبہ کلینک پر بیٹھنے اور دعوتی کام کرنے کے علاوہ ہر کام بحسن و خوبی انجام دیتی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ وقت کا صحیح استعمال اور وقت کی قدر میرا اصول رہا ہے اور میں نے وقت کو مال کی طرح حفاظت کی جس کے باعث اس میں توازن رہا ۔ وہ ہر وقت سماجی خدمات میں آگے رہتی ہیںان کا کہنا ہے کہ خدمت انسانی کے جذبے ہی نے مجھے کلینک بیٹھنے پر مجبورکرکیا۔خواتین میں فہم القرآن و حدیث کے دل سوز دروس کے حوالہ سے مشہور ہیں ۔وہ دروس قرآن میں وہ بڑی مہارت رکھتی ہیں اور ان کے دروس ہر جگہ پسند کئے جاتے ہیں۔وہ عورت کے مسائل اور ایشوز پر بھی لکھتی رہتی ہیں ۔ عورت کے حقوق کے تعلق سے لکھتی ہیں کہ اسلام نے عورت کا وہ مقام و حیثیت متعین کی جس کا وہ استحقاق رکھتی ہے  اور عورت کو نگینے اور آبگینے جیسی حساس اور قیمتی چیز سے تشبیہ دی اور اس کی ناموس ، عزت اور تقدس کے تحفظ کو معاشرہ کے دوام اور استحکام کے ساتھ مشروط کیا ۔ حجاب کے تعلق سے وہ کہتی ہیں کہ’’ حجاب مسلم معاشرے کی زینت و شعار ہے ۔اور اسلام کے تصور حجاب کو اس کی گہرائی میں سمجھنے کی ضرورت ہے چونکہ علامتی اور ظاہری حجاب و پردے کو اختیار کرنے کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کے باوجود معاشرہ حیاء و حجاب کے ثمرات کو حاصل کرنے سے عاجز ہے جس کی بنیادی وجہ احکام حجاب کو اس کی اصل روح کے ساتھ اختیار کرنے کا فقدان ہے ‘‘  ۔
عائشہ سید  
  عائشہ سید خواتین کے حلقہ میں ایک بڑی شخصیت ہیں ۔ آپ نہ صرف داعی اور نظریاتی سیاست داں ہیں بلکہ ایک متحرک سماجی کارکن بھی (Social Activist) ہیں ۔آپ جماعت اسلامی کی سابق نائب قیمہ کے عہدے پر بھی فائز رہ چکی ہیں ۔آپ ایک کامیاب حجابی سیاست داں ہیں ۔ برقعہ ان کے کام کرنے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنی اور انھوں نے عملا دکھایا کہ برقعہ اور حجاب پہن کر کیسے قوم کی خدمت کی جاتی ہے ۔ موصوفہ سوات سے تعلق رکھتی ہیں جو ایک پسماندہ علاقہ ہے ۔ انھوں نے وہاںتعلیم کے میدان میں اہم رول ادا کیا اور نہ صرف چالیس سے زیادہ بند اسکولوں کو بحال کروایا بلکہ اسمبلی میں خواتین کے لئے ایک یونیورسٹی بھی منظور کروائی ۔اس کے علاوہ وہ تعلیمی اداروں  میں خود جاکر جائزہ لیتی ہیں ۔ موصوفہ قومی اسمبلی کی رکن بھی ہیں اور ان کو جو تنخواہ  اور دیگر مراعات ملتی ہیں وہ جماعت اسلامی کے فلاحی اداروں کو دے دیتی ہیں۔وہ خواتین کو باصلاحیت بنانے پر بھر پور توجہ دیتی ہیں اور دست کاری کے ذریعہ خواتین کو روز گار فراہم کرتی ہیں ۔ اس کے علاوہ غریب خواتین کو حکومت سے مالی امداد فراہم کرنے میں سب سے آگے رہتی ہیں ۔ وہ پاکستان میں سب سے متحرک اور دل نواز سیاسی اور سماجی کارکن ہیں ۔ حال ہی میں شامی مہاجرین کے حالات اور مسائل حل کرنے کے لئے شام اور ترکی کا دورہ بھی کیا ۔وہ یقینا مسلم خواتین کے لئے رول ماڈل ہیں ۔  
رابطہ 7906931017
 
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

سانبہ جموں میں بی ایس ایف اہلکار مبینہ خودکشی
تازہ ترین
گرمیوں کی تعطیلات کے بعد کل سے دوبارہ کھلیں گےاسکول: سکینہ ایتو
تازہ ترین
دنیا بھر میں جاری تنازعات تیسری عالمی جنگ کا سبب بن سکتے ہیں: نتن گڈکری
تازہ ترین
سرنکوٹ میں چھت سے گر کر بزرگ خاتون لقمہ اجل
تازہ ترین

Related

گوشہ خواتین

مشکلات کے بعد ہی راحت ملتی ہے فکر و فہم

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

ٹیکنالوجی کی دنیا اور خواتین رفتار ِ زمانہ

July 2, 2025
کالمگوشہ خواتین

نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان کیوں؟ فکر انگیز

July 2, 2025
گوشہ خواتین

! فیصلہ سازی۔ خدا کے فیصلے میں فاصلہ نہ رکھو فہم و فراست

July 2, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?