میر شوکت پوچھی
جب انسان نے پہلا پتھر تراش کر اپنے لیے ہتھیار بنایا، وہ لمحہ تاریخ کا نقطۂ آغاز تھا۔ مگر وہیں سے قدرت اور انسان کے درمیان ایک خاموش مگر مسلسل کشمکش نے جنم لیا۔ ابتدا میں انسان فطرت کے رحم و کرم پر تھا، دھوپ سے جھلستا، بارش میں بھیگتا، طوفانوں سے ڈرتا اور زمین کی زرخیزی کا محتاج ہوتا۔ مگر جوں جوں عقل نے ترقی کی اور سائنس نے ہاتھ تھاما، انسان نے فطرت کو نہ صرف سمجھنے بلکہ اسے مسخر کرنے کی ٹھانی۔ اور بس، وہیں سے وہ دور شروع ہوا جسے آج ہم’’ترقی‘‘ کہتے ہیں، مگر جو درحقیقت اکثر اوقات ’’تباہی‘‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کوئی معمولی سی لغزش نہیں، یہ ایک اخلاقی، تہذیبی اور فکری جرم ہے۔ جس طرح کوئی بچہ ماں کی گود میں کھلونے توڑ کر خوش ہوتا ہے، انسان نے قدرت کے نظارے، ندیاں، پہاڑ، جنگلات اور ہوائیں اسی معصوم مگر سنگین بے خبری سے توڑ ڈالیں اور جب قدرت نے پلٹ کر تھپڑ مارا — ،زلزلوں، سیلابوں، طوفانوں، گرمیوں، بارشوں، بیماریوں کی شکل میں — تو انسان کو اپنی محدود حیثیت کا احساس ہوا، مگر دیر سے۔
دراصل مسئلہ صرف اتنا نہیں کہ ہم نے درخت کاٹ دئیے یا پہاڑ چیر ڈالے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے زمین کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ ہم نے قدرتی توازن کو اس طرح بگاڑا ہے جیسے کوئی شاعر اپنے ہی مصرعوں کو توڑ مروڑ کر دوسروں کے لیے مضحکہ خیز بنادے۔ایسا نہیں کہ تاریخ ہمیں خبردار نہیں کرتی۔ بابل کی تہذیب دجلہ و فرات کے کنارے آباد تھی، لیکن جب زمین کی زرخیزی کے لالچ میں ندیوں کا بہاؤ بدلا گیا، تو یہی پانی ان کا دشمن بن گیا۔ موہنجو داڑو، ہڑپہ اور مایا تہذیب کی بربادی کی کہانیاں صرف آثارِ قدیمہ نہیں، وہ آج کے دور کے لیے تنبیہات ہیں۔
یونان کا مشہور فلسفی ہیراکلیٹس کہتا تھا،’’You cannot step into the same river twice‘‘ — یعنی فطرت ہمیشہ تغیر پذیر ہے۔ مگر ہم نے اسے جامد سمجھ لیا اور اپنی مرضی سے اس کا رخ موڑنے لگے۔ نہروں، ڈیموں، سپر ہائی ویز اور کثیرالمنزلہ عمارتوں کی بنیاد پر ایک ایسی ترقی کی عمارت کھڑی کی، جس کی بنیاد ہی ریت پر تھی۔آج ہم جس ماحولیاتی بحران کا سامنا کر رہے ہیں، وہ کسی’’قدری آزمائش‘‘ کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی حماقتوں، لالچ، اور منصوبہ بندی کے بغیر کی گئی ترقی کا نتیجہ ہے۔ کاربن کا بوجھ، گرین ہاؤس گیسز، بارشوں کا بے وقت آنا اور جانا، بے موسم کی آندھیاں، گرمیوں کی شدت اور سردیوں کی بےرحمیاں — سب کچھ ہماری ہی کارستانیوں کا ثمر ہے۔لیکن افسوس! ہم اب بھی عبرت نہیں لیتے۔ ہم اب بھی سمندر کے کنارے بڑے بڑے ہوٹل بناتے ہیں، پہاڑوں پر سڑکیں کھودتے ہیں، جنگلات میں کارخانے قائم کرتے ہیں۔یہ کیسی ترقی ہے جس میں درختوں کے قاتل ہیرو سمجھے جاتے ہیں؟یہ کیسا تمدن ہے جس میں ندیوں کے بہاؤ کو زنجیروں میں جکڑ کر تالابوں میں قید کیا جاتا ہے؟یہ کیسا علم ہے جو قدرت کے لطیف نظام کو تاراج کر کے عقل کی فتح کا جشن مناتا ہے؟اور پھر جب قدرت پلٹ کر وار کرتی ہے، تو ہم کہتے ہیں،’’یہ خدا کا عذاب ہے!‘‘نہیں صاحب، یہ عذاب نہیں، یہ ہماری اپنی سزا ہے۔ذرا غور کیجیے، جب ہم کسی عمارت کی بنیاد میں بال برابر کجی برداشت نہیں کرتے تو زمین جس پر ہم کھڑے ہیں، جسے ہم کاٹتے، چیرتے، روندتے جا رہے ہیں، وہ کیسے ہمیں معاف کرے گی؟
فطرت ماں ہے، مگر اس کی برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔دنیا بھر میں ہونے والی قدرتی آفات کا جائزہ لیں، — کہیں لینڈ سلائیڈنگ نے پوری آبادی کو نگل لیا، کہیں زلزلے نے راتوں رات بستیاں مٹی میں ملا دیں، کہیں طوفانی بارشوں نے شہروں کو سمندر بنا دیا۔مگر ہم اب بھی کہتے ہیں،’’تعمیراتی ترقی ضروری ہے۔‘‘
جی ہاں، ترقی ضروری ہے، لیکن بےہنگم نہیں۔یہ بےترتیب، لالچ سے بھری، منصوبہ بندی سے عاری ترقی دراصل’’تباہی کی تیاری‘‘ ہے۔آپ دیکھیں، پہاڑی علاقوں میں جب بےتحاشا عمارتیں بنائی جاتی ہیں، زمین اپنی گرفت کھو بیٹھتی ہے۔ زمین کھسکنے لگتی ہے، پانی کا فطری بہاؤ رُک جاتا ہے، چشمے سوکھ جاتے ہیں۔پھر انسان خود ہی پانی کی کمی کا رونا روتا ہے، پھر خود ہی بورنگ کر کے زمین کی کوکھ کو چوس لیتا ہے اور آخرکار وہ لمحہ آتا ہے جب زمین خالی ہو جاتی ہے — خالی، بنجر، مردہ۔
یہی حال شہروں کا ہے۔شہر جو کبھی دریا کنارے آباد ہوتے تھے، آج خود دریا بن چکے ہیں ۔— بارش آتی ہے تو سڑکیں دریا، گٹر فوارے اور گلیاں کشتیوں کا راستہ بن جاتی ہیں۔کراچی، دہلی، ممبئی، کولکتہ، چنئی — کون سا ایسا شہر ہے جہاں فطرت نے انتقام نہ لیا ہو؟اور جب ہم تھک ہار کر ان تباہ کاریوں سے پریشان ہو کر سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں،’’یہ تو خدا کی ناراضگی ہے!‘‘تو کاش کوئی کہے،’’نہیں جناب! یہ انجینئرنگ کی نالائقی ہے!‘‘فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا مطلب صرف پہاڑ کاٹنا، درخت گرانا یا سمندر بھرنا نہیں — ،یہ ایک مکمل نظام کو چیلنج کرنا ہے اور فطرت کا نظام بڑا سخت گیر ہے، وہ معاف نہیں کرتا۔
آج ہمیں ضرورت ہے اس شعور کی جو ہمیں بتا سکے کہ ہر ترقی، ہر تعمیر، ہر سہولت کے پیچھے ایک بوجھ ہوتا ہے۔ ہم جو سڑکیں بچھاتے ہیں، وہ درختوں کی قبریں ہوتی ہیں۔ہم جو فلائی اوور بناتے ہیں، وہ بارش کے قدرتی راستے بند کرتے ہیں۔ہم جو بڑی بڑی کالونیاں بساتے ہیں، وہ چشموں کی راہوں کو دفن کرتی ہیں۔یہ سب جانتے ہوئے اگر ہم باز نہ آئیں تو یقین جانیں، وہ دن دور نہیں جب’’ہماری ترقی کی نشانیاں ہی ہماری بربادی کی یادگاریں بن جائیں گی!‘‘
کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ ہمالیہ کی وادیوں میں لینڈ سلائیڈنگ نے کیسے بستیاں نگل لیں؟کیا ہم نے نہیں سنا کہ یورپ کے ترقی یافتہ ملک بھی گرمی کی شدت سے پگھل رہے ہیں؟کیا ہم نے نہیں پڑھا کہ افریقہ میں دریا خشک ہو رہے ہیں، اور امریکہ میں برف پگھل رہی ہے؟پھر بھی ہم فطرت سے جیتنے کی ضد میں ہیں۔لیکن صاحبو!فطرت کو شکست نہیں دی جا سکتی، — اس سے سیکھا جا سکتا ہے، اس کے ساتھ جیا جا سکتا ہے، مگر اس پر حکومت نہیں کی جا سکتی۔یہی وہ وقت ہے جب ہمیں پلٹ کر دیکھنا چاہیے۔شاید یہ زخم، یہ طوفان، یہ سیلاب، یہ زلزلے — سب ہمیں ایک ہی بات سمجھا رہے ہیں:’’تم زمین کے وارث ہو، مالک نہیں!‘‘لہٰذا، اگر ہمیں واقعی ترقی کرنی ہے تو ہمیں قدرت سے ہم آہنگ ترقی کا راستہ اپنانا ہوگا۔شجرکاری، بارشی پانی کا ذخیرہ، جنگلات کا تحفظ، ساحلی علاقوں میں تعمیری ضابطے، ماحولیاتی توازن کی حفاظت — یہ سب اب صرف اختیار نہیں، بلکہ بقاء کی شرایط ہیں۔آئیے، اس دنیا کو اگلی نسل کے لیے ایک ایسی جگہ بنائیں جو صرف بلند عمارتوں اور چوڑی سڑکوں سے نہ پہچانی جائے بلکہ جہاں ہوا خوشبو لے کر چلے، پانی میں شفافیت ہو، درختوں سے ہریالی جھانکےاور زمین، ہماری ماں، ہمیں سینے سے لگائے — ناراض نہیں، مطمئن۔ورنہ،فطرت کا انتقام نہ طوفان سے آتا ہے، نہ زلزلے سے — ،وہ خاموش ہوتا ہے، مگر حتمی۔اور جب وہ آتا ہے،تو نہ دعائیں بچاتی ہیں، نہ ترقی۔
رابطہ۔(جموں) 9906083786