رواں سال کے گزشتہ تین ماہ کے دوران جہاں جموں و کشمیر کے مختلف پہاڑی اضلاع میں بادل پھٹنے ،شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات سے دِل دہلانے والے سانحات وقوع پذیر ہوئے ،وہیں ان واقعات و سانحات کی شدت اور سنگینی نے ایسا قہر برسایا کہ ابھی تک متاثرہ لوگ اُس کی لرز سےباہر نہیں آرہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کلاؤڈ برسٹ نے نہ صرف قدرتی توازن کو بگاڑ کر رکھ دیا بلکہ پُرسکون وادی نما علاقوں کو شدید لینڈ سلائیڈنگ اور ہولناک سیلاب نے تہس نہس کرکے انسانی بستیوں کو ملیا میٹ کردیا بلکہ وہاں پر موجود زندگی کے نشانات تک آنکھوں سے اوجھل کرکے رکھ دیئے۔
جموں و کشمیرکے ضلع کشتواڑ کے چسوتی علاقے میں پیش آئےلینڈ سلائیڈنگ اورتباہ کُن سیلاب نے تو ہر چیز کو مٹی میں دفن کرکے رکھ دیا جبکہ کھٹوعہ کے لوگوں کو بھی اسی طرح کے سانحے سے دوچار ہونا پڑا۔اور اب گذشتہ روز اودھم پور ضلع کے نرسو،سمرولی علاقے میں بھی ایک خوفناک لینڈسلائیڈ کا واقع پیش آیا ،جس کے نتیجے ایک ہوٹل اور اس کے قریب واقع کئی عمارتیں منہدم ہوگئیں۔اگرچہ مقامی انتظامیہ فوری طور پر جائے وقوعہ پہنچ گئیں اور بڑے پیمانے پر ریسکو آپریشن شروع کرکےراحت و بچائو کاروائی شروع کردی ہے،تاہم ابھی تک جانی یا مالی نقصانات کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے۔اس سال جموں و کشمیرمیں زمین کھسکنے کی وجہ سےمتعدد علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی بھی اجیرن بن گئی ہے۔ظاہر ہے کہ پہاڑ، جنہیں ہم زمین کا ستون سمجھتے ہیں، صدیوں سے اپنی سنگلاخ چھاتیوں میں فطرت کے راز چھپائے ہوئے ہیں۔ یہ اپنی چوٹیاں آسمانوں سے ہمکلام رکھتے ہیں اور ان کے دامن میں بہتی ندیاں، جھرنے اور جھیلیں ایک سحر انگیز توازن کی گواہی دیتی ہیں۔ لیکن جب یہی فطرت اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے توہولناک واقعات کی شکل میں نظام کو بدل دیتی ہے،جو مختلف صورتوں میں انسانی بستیوں پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں یہ زیادہ اس لئے ہوتا ہے کہ یہاں زمینی ساخت اونچی نیچی ہوتی ہے، ہوا میں نمی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور جب مرطوب ہوائیں کسی پہاڑی سے ٹکرا کر رُکتی ہیں تو بادل میں موجود نمی ایک دم زمین پر برستی ہے،اس لئے یہ کہنا شائد بے جانہ ہوگا کہ یہ محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک اجتماعی غفلت کا نتیجہ ہے، جو برسوں سے پہاڑی علاقوں میں جاری غلط منصوبہ بندی اور بے لگام ترقی کی عکاسی کرتا ہے۔
شارٹ کٹ اپروچ اپناتے ہوئے ندی کنارے سڑکیں تعمیر کی گئیں، جن کا نہ جغرافیائی مطالعہ کیا گیا، نہ ماحولیاتی اثرات کو مدنظر رکھا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہی سڑکیں تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہی ہیں۔ جہاں پہلے ندی کنارے پرانے بستیوں کا سکون تھا، وہاں اب سڑکوں کے ساتھ جنکشن بن گئے اور آہستہ آہستہ وہ علاقے تجارتی مراکز میں بدل گئے۔ حکومتوں نے ان مقامات پر اسکول، اسپتال، دفاتر اور پنچایت گھر قائم کر دئیے اور یوں ندیوں کے تلچھٹ پر انسانی آبادیاں بسانا ایک معمول بن گیا۔جس سے عیاں ہوجاتا ہے کہ فطرت کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ چھیڑ چھاڑ کس قدر بھیانک انجام کا سبب بن سکتی ہے۔ہم سب اس زمین کے نگہبان ہیں، خواہ پالیسی ساز ہوں یا عام شہری، سیاح ہوں یا مقامی باشندے۔ لازم ہے کہ ہم فطرت سے مصالحت کریں اور ترقی کے نام پر بربادی کے راستے بند کریںاور ہماری ترقی، فطرت کی تباہی کا دوسرا نام نہ بنے۔یاد رہے کہ جب انسان اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے، زمین پر تکبر، لالچ اور استحصال کی راہیں اختیار کرتا ہے تو وہ نہ صرف خود اپنے لئے تباہی لاتا ہے بلکہ پورے ماحول کو بگاڑ کر رکھ دیتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہانسان کو اپنے اُن اعمال کا جائزہ لینا چاہیے، جن کی وجہ سے ہمارے لئے پُر سکون زندگی گذارنا دشوار ترین ہورہا ہے۔
زمین پر سارے قدرتی وسائل پانی، ہوا، جنگل، زمین اور فضا کا نظام معتدل، متوازن، انسان، حیوان، نباتات بلکہ جمادات تک کے لئے تھا اور یہ سب قدرتی نظام کے مطابق اپنا کام کر رہے تھے، پھرجب آبادیاں بڑھیں اور ضرورتیں بھی بڑھیں، ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیےانسان نے قدرتی وسائل کا غلط استعمال شروع کیا۔ درخت اور پہاڑ کو کاٹ کاٹ کر مکان کے لئے زمین، دروازے، چوکھٹ اور پتھروں کا کثرت سے استعمال کیا جانے لگا،جس کی وجہ سے زمین کا نظام بگڑ گیا، فضائی آلودگی بڑھی، صاف پانی اور ہوا کی قلت ہوگئی اور ہماری زندگی مشکل اور بے سکون بن گئی۔