ارشاد علی ارشاد
حج فرض عبادات میں سے ایک ایسا فریضہ ہے جو بطور فرض پوری زندگی میں فقط ایک بارادا کرنا ہوتا ہے۔اس فرض کی ادائیگی کے لئے جو سفر کیا جاتا ہے اسے سفر محمود کہتےہیں۔یہ سفر اس لئے محمود ہے کہ یہ خالص رضائے الٰہی کے واسطےکیا جاتا ہے ۔اس میں نہ سیر و سِیاحت اور نہ ہی کوئی تجارت و بیوپار مقصود ہوتا ہے۔یہ خالص عاشقانہ سفر ہے جسکی بے انتہا فضیلت ہےاور اس مقدس سفر کی فضیلت کو پانے کے لئے قلب وجگر میں عشق ابراہیم علیہ السلام کا تصور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
سفر محمود پر روانگی سے قبل اس کے تمام تر لوازمات اوراحکامات کاجاننا ایک عازم کے لئے ناگزیر ہے۔سفر کے دوران ہر لحظ ادب و احترام، خیالات کی پاکیزگی،دنیا سے بے رغبتی ،ایک اللہ کی رضا جوئی اور خوف خدا وندی کو ملحوظ نظر رکھنا شرف قبولیت اور حصول فضیلت کے لوازمات میں سے ہے۔
ایک شخص اپنے اہل و عیال کے روزمرہ اخراجات اور اپنی خون پسینہ کی کمائی میں سے ایک قلیل رقم بچابچاکے سفر محمود کےلئے زاد راہ تیار کرتا ہے اور سفر پر نکلتا ہے ۔اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ اور عزیزو اقارب کی بہت ساری امیدیں بھی وابستہ ہوتی ہیں ۔پھر اگر وہ اس سفر کے دوران لغویات،فحش گوئی ،فسق و فجور اور دوسروں کی ایذا رسانی سے اپنے آپ کو باز نہ رکھ سکا تو اس کا یہ سفر کہیں ایسا سفر ثابت نہ ہو کہ جب حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجاج کو دیکھتے تو فرماتے۔۔۔۔۔”حاجی کم ہوتے جا رہے ہیں اور سفر کرنے والے بڑھتے جارہے ہیں”۔
سفر محمود کی فضیلت سے فیضیاب ہونے کے لئے ضروری ہےکہ زاد راہ پاک و صاف ہو ،نیّت میں خلوص ہو،دل میں خوف خداوندی ہو،زبان پر ذکر ہو اورذہن میں فکر ہو کہ اللہ کے گھر کا طواف کرنے جا رہا ہوں جو اوّل وآخر ،ظاہر و باطن،عرش وفرش،موت وحیات،بہشت و دوزخ، ارض وسما ،شمس وقمر ،جن و انس ،چرندوپرند ،نباتات وحیوانات، شجروحجر، بحر وبر اور ہر چیز کےخالق ومالک ہیں۔اللہ تعالے فرماتے ہیں:
“حج (کا زمانہ) چند مہینے ہیں جو معلوم ہیں(یعنی یکم شوال سے لیکر دس ذی الحجہ تک۔) پس جو شخص ان میں اپنے اوپر حج مقرر کر لے( کہ حج کا احرام باندھ لے)تو پھر نہ کوئی فحش بات کرے نہ کوئی گناہ اور نہ کوئی جھگڑا۔البقرۃ : ا 197.
حدیث شریف میں ہےکہ:
” جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق وفجور سے بچا،وہ گنا ہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہےجیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا”۔البخاری: 1820
اس حدیث شریف میں ایک حاجی کو جس بہت بڑی بشارت کی نوید سنائی گئی ہے اس کے حصول کے لئے تین شرطیں بھی بتلائی گئ ہیں:
اوّل یہ کہ نیّت خالص حج کی ہو اور کوئ دنیاوی غرض اس میں شامل نہ ہو۔دوئم یہ ہے کہ فحش ،بے حیائی اور بے شرمی کی باتوں سے پرہیز کرے۔یہاں تک کہ اپنی رفیق حیات سے بھی۔سوئم یہ کہ کوئی گناہ کا کام اور نافرمانی نہ کرے ۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ: ” نیکی بھرے حج کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے”
جہاں تک حج بیت اللہ کی فضیلت کا تعلق ہے اس کا احاطہ اس مختصر سے مضمون میں اگر چہ ناممکن ہے تا ہم چند فضائل احادیث مبارکہ کی روشنی میں مختصرا” پیش خدمت ہیں ۔
1☆ “بیت اللہ کےگرد طواف کرنے والا گویا عرش رحمان کے گرد طواف کرنے والا ہے”
2 “جس نے حجرہ اسود کو چھوا وہ گناہوں سے ایسا پاک ہوا جیسا پیدائش کے دن تھا”
3☆ ” روے زمین پرسواے مکہ مکرمہ کے دوسری جگہ ایسی نہیں ہےجہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزانہ ایک سو بیس رحمتیں نازل ہوتی ہوں،جن میں ساٹھ رحمتیں بیت اللہ شریف کا طواف کرنے والوں کے لئےاور چالیس رحمتیں (وہاں)نماز پڑھنے والوں کے لئے ،اور بیس رحمتیں بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنے والوں کے لئے ہیں”
4☆ ” سواے مکہ مکرمہ کے روے زمین پر کوئی ایسا شہر نہیں جس میں ایک نیکی کو اللہ تعالے ایک لاکھ بنا دیں۔
5 یہاں ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے پر ایک لاکھ کا ثواب ہے۔
6 ︎ایک ختم قرآن پر ایک لاکھ ختم قرآن کا ثواب ہے ۔
7 یک نماز پڑھنے پر ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ہے۔
8 جماعت سے نماز پڑھنے پر پچیس لاکھ کا ثواب ہے۔
9 ایک روزہ رکھنے پر ایک لاکھ روزوں کا ثواب ہے۔
10 ایک درہم صدقہ کرنے پر ایک لاکھ درہم صدقہ کرنے کا ثواب ہے۔
آنحضور ﷺ کا ارشاد ہے “جس نے حج کیا اور پھر میری زیارت کا قصد کیااور میری مسجد میں مشرف ہونے کا ارادہ کیا اس کے لئے دو حج مبرور( یعنی مقبول حج )لکھے جاتے ہیں”۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا: “حج اور عمرہ یکے بعد دیگرے کرتے رہو کیونکہ یہ دونوں محتاجی اور گناہوں کواس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بٹھی لوہے،سونے اور چاندی کی میل کچیل دور کرتی ہے اور حج مقبول کا ثواب صرف جنت ہی ہے”۔(ترمذی، نسائی،طبرانی)۔
حج بیت اللہ کی اہمیت ،افادیت اور فضیلت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مقدس سفر پر روانگی سے قبل چند اصطلاحی الفاظ کے مفاہیم سمجھناایک عازم کے لئے انتہائ ضروری ہے کیونکہ ان ہی اصطلاحات کے ساتھ آپ کا مبارک سفر شروع ہو نے جارہا ہے۔چند اصطلاحات مع توضیح حسب ذیل ملاحظہ ہوں ۔
1☆۔استلام :-حجر اسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ سے چھونا۔یا حجر اسود اور رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا۔
2☆۔اضطباع:- احرام کی چادر داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا۔
3☆۔آفاقی:- وہ شخص جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو جیسے ہندوستانی، پاکستانی،مصری ،شامی ،ایرانی عراقی وغیرہ۔
4☆۔تلبیہ:- لبیک اللہم لبیک ۔۔۔۔۔۔آخر تک پڑھنا۔ 5☆۔تہلیل:- لاالہ الا اللہ پڑھنا۔ 6☆۔حلق:-سر کے بال منڈوانا۔
7☆۔قصر:- سر کے بال کتر وانا۔8☆۔دم:- احرام کی حالت میں ممنوع افعال کرنے سےیا کسی واجب کے چھوڑ دینے سے بکری ،بیڑ یا دنبہ ذبح کرنا ہوتا ہے اس کو دم کہتے ہیں۔
9☆۔رمل:-طواف کے پہلے تین پھیروں میں اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدم لیکر ذرا تیزی سے چلنا۔
10☆۔رمی:- کنکریاں پھینکنا۔11☆۔سعی:-صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگانا۔
12☆۔یوم عرفہ:- نویں ذی الحجہ جس روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں قیام کرتے ہیں۔
13☆.تکبیر تشریق:-9ذی الحجہ کی فجر نماز سے لیکر13 ذی الحجہ کی عصر نماز تک ہر فرض نماز کے بعد زور سے اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ وللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد پڑھنے کو تکبیر تشریق اور ان ایام کو ایام تشریق کہتے ہیں ۔اللہ تعالے ہم سب کو حج بیت اللہ کی سعادت اور اسکی فضیلت سے نوازے ۔آمین۔
رابطہ۔مہو ویلی( بانہال)