ایک تعارف
عمر فاروق راتھر
تاریخ کے شعوری مطالعے سے کم از کم دو فائدے تو ضرور حاصل ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ انسان اپنے ماضی اور اسلاف سے واقف ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس میں خود احتسابی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔اگر ماضی حال سے زیادہ روشن ہو تو تاریخ کا مطالعہ اس میں احساسِ محرومی پیدا کر کے مزید محنت کا داعیہ پیدا کرتا ہے اور اگر ماضی حال سے زیادہ تاریک ہو تو مطالعہ کرنے والا پستی اور ذلّت کی طرف لے جانے والے عوامل سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتا ہے۔
اسلاف شناسی اور ان کی قدر دانی زندہ اقوام و مِلَل کی لازمی صفات تصوّر کی جاتی ہیں۔اُس قوم کی حیثیت ہی کیا ہے جو کہ اپنے محسنین کو یاد نہ رکھے اور ان کے کارناموں سے واقف نہ ہو۔ایسی قومیں کبھی بھی بامِ عروج نہیں پا سکتیں جو کہ اپنے اکابر کو بھول جائیں یا ان کی ناقدری کریں۔مگر حقیقت یہی ہے کہ کُتب بینی کا رواج کم ہونے اور مجموعی طور پر ترجیحات کے بدل جانے کی وجہ سے اب نئی نسل اپنے اسلاف کے ناموں اور ان کے کارناموں سے یکسر ناواقف نظر آتی ہے۔
جموں و کشمیر جو کہ ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے،اپنا ایک منفرد اور شاندار ماضی رکھتا ہے۔یہاں کی اسلامی تاریخ سینکڑوں سالوں پر مُحیط ہے۔بے شمار مؤرخین نے ہمارے اس خطے کی تاریخ قلمبند کرنے کی سعی جمیلہ کی ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔حال ہی میں وادیِ کشمیر کے ایک معروف محقق و مصنف خاکی محمد فاروق صاحب کی ایک نئی تصنیف بعنوان’’فضلائے جموں و کشمیر کی تصنیفی خدمات(اسلامی علوم و فنون کے سلسلے میں )‘‘منظرِ عام پر آگئی۔اس سے پہلے بھی موصوف تقریباً دو درجن کے فکری اور معیاری کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔کم و بیش چار سو صفحات پر مشتمل اس شاندار و جاندار کتاب کو مکتبہ اسلامیہ نوگام سرینگر نے اعلیٰ طباعت سے شائع کیا ہے۔اس کتاب میں فاضل مصنف نے جموں و کشمیر میں اسلام کی آمد سے لے کر رواں سال تک کے سینکڑوں مصنفین و مؤلفین اور ان کی ہزاروں کتابوں کا اختصار کے ساتھ تذکرہ کیا ہے۔اس اعتبار سے یہ اپنے موضوع پر اس نوعیت کی پہلی جامع اور منفرد کتاب ہے۔
یہ کتاب تیرہ ابوب پر مشتمل ہے۔اس کا آغاز مختلف اہلِ علم کی تقاریظ اور ان کے تاثرات سے ہوتا ہے جن میں مصنف کے فرزندِ صالح جناب خاکی عمر فاروق فلاحی صاحب،ڈاکٹر جوہر قدوسی صاحب،ڈاکٹر قاضی عبد الرشید ندوی صاحب،مفتی اسحاق نازکی صاحب،فہیم محمد رمضان صاحب،ڈاکٹر شکیل احمد شفائی صاحب،پروفیسر علی محمد ڈار صاحب اور ڈاکٹر عنایت اللہ ندوی صاحب شامل ہیں۔مصنف نے خود عرضِ مؤلف کے عنوان سے اپنے مضمون میں اس کتاب سے متعلق چند اہم باتیں قلمبند کی ہیں۔میرا ذاتی خیال ہے کہ اس کتاب کا مطالعہ کرنے والا ہر شخص مصنف کے محققانہ ذہن،محنت اور لگن سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔خود موصوف ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں:’’میں نے اس کتاب کی تحریر و ترتیب کے دوران ہزاروں کُتب و رسائل اور مقالات کا مطالعہ کیا،سینکڑوں اہلِ قلم اور علم دوست حضرات سے ملاقاتیں کیں،سو سے زائد لائبریریوں کا مشاہدہ کیا،بیسیوں کُتب فروشوں کے بُک سٹالوں اور درجنوں اشاعتی اداروں کی فہرستِ کُتب دیکھی۔اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھی کافی استفادہ کیا۔‘‘(صفحہ 36)
پہلے باب میں مصنف نے علمائے جموں و کشمیر کی قرآنی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔اس میں انہوں نے تمام مکاتبِ فکر سے وابستہ علماء کے تراجم و تفاسیر کا ذکر کیا ہے جو کہ انہوں نے مختلف زبانوں بالخصوص عربی،فارسی،اردو،کشمیری اور گوجری زبانوں میں لکھے ہیں۔دوسرے باب میں انہوں نے یہاں کے علماء کی خدماتِ حدیث کے سلسلے میں کی گئی کاوشوں کا تذکرہ کیا ہے۔تیسرے باب میں فقہی خدمات کا تذکرہ ہے اور چوتھے باب میں سلوک و تصوف کے میدان میں تصانیف اور تراجم و شروحات کا ذکر کیا گیا ہے۔احقاقِ حق اور ابطالِ باطل سے متعلق بھی یہاں بہت کچھ کام ہوا ہے۔اس موضوع سے متعلق کُتب و رسائل کو فاضل مصنف نے پانچویں باب میں جگہ دی ہے۔سیرتِ انبیاء اور تذکرۂ صحابہ کو بھی یہاں کے علماء نے ہرگز نظر انداز نہیں کیا ہے۔چنانچہ چھٹے باب میں ان دو عنوانات کے تحت لکھی جا چکی مختلف کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی عرض کیا کہ جموں و کشمیر میں تاریخ نویسی اور تذکرہ نگاری پر پہلے بھی بہت ہی سنجیدہ کام ہوا ہے۔چنانچہ مصنف نے ان دو عنوانات کے تحت متعلقہ کُتب کو بالترتیب جگہ دی ہے۔اس کے علاوہ اوراد و وظائف سے متعلق کتابوں کو نویں باب میں شامل کیا ہے۔
مسالک و مکاتبِ فکر کی موجودگی سے مختلف فیہ امور کے سلسلے میں کبھی نہ کبھی اختلافات کا رونما ہونا ایک فطری اور لازمی امر ہے۔اگر یہ اختلاف حق تک پہنچنے کے لیے ہو تو رحمت ہی رحمت ہے اور اگر فقط اپنی اَنا کی تسکین کے لیے ہو تو باعثِ ذلت و رسوائی ہے۔یہاں جو کتابیں مختلف مسالک سے وابستہ علماء نے ایک دوسرے کے رد میں لکھی ہیں مصنف نے ان کتابوں کو دسویں باب کے تحت نقل کیا ہے۔تجربے سے یہ ثابت ہے کہ بارہا مشکل باتیں منظوم صورت میں زیادہ جلدی یاد رہتی ہیں۔اسی لیے یہاں کے مسلم شعراء نے حمد،نعت،مرثیہ اور ادب کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی اور بیسیوں کتابیں تصنیف کیں۔خاکی صاحب نے گیارہویں باب میں ان ہی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔
جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ جن شعراء کا کلام سب سے زیادہ مؤثر رہا اور مقبول ہوا ان میں علامہ محمد اقبالؒ(جن کے آباء و اجداد وادیِ کشمیر کے دیوسر کولگام علاقے سے تعلق رکھتے تھے) اور شیخ نور الدین نورانیؒ المعروف شیخ العالم سرِ فہرست ہیں۔ان کے کلام کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے مصنف نے شیخیات اور اقبالیات کے لیے الگ الگ عنوان قائم کیے ہیںاور آخری یعنی تیرہویں باب میں بعض دیگر مصنفین کی متفرق کُتب کا ذکر کیا ہے۔
خاکی محمد فاروق صاحب انتہائی مبارک بادی کے مستحق ہیں،جو کہ بہت مشکل،علمی اور تحقیقی کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں اور انہیں پھر بحسن و خوبی انجام بھی پہنچاتے ہیں۔دیگر علمائے کرام جو تصنیف کی صلاحیت رکھتے ہیں،کو بھی مسلکی تعصبات سے بالا ہو کر اہم اور سنجیدہ موضوعات پر لکھنا چاہیے۔اللّٰہ تعالیٰ خاکی صاحب کی جملہ خدماتِ جلیلہ کو اپنی بارگاہِ صمدیت میں قبول فرمائے۔آمین
[email protected]