ماسٹر طارق ابراہیم ۔رام بن
وہ صلابت بدن اور مہارت فن میں یکتائے روزگار تھے۔جنکا دعویٰ تھا من اشد منا قوۃ۔ یعنی ہم سے زیادہ طاقتور کون ہے؟اِدھر خالق کائنات نے اعلان کر دیا تھا کہ:لم یخلق مثلھا فی البلاد یعنی اس جیسی قوت والی قوم پیدا نہیں کی گئ۔مگر خود کو مہذب سمجھنے والی یہ قوم معذب قوموں کی تاریخ کا حصہ بن گئ۔تکبر اور گمراہی کے نتیجے میں صبح تڑکے سات شب آٹھ روز صیحۃ اور رجفۃ کی گن گرج نے اس قوم کا کیا حال کر دیا۔فساد کرنے والی اقوام ہر دور میں عتابِ الٰہی کی زد میں رہیں۔قوم عاد جسکی جسمانی قوت اور فنی مہارت بے مثل تھی ،الله کے احکامات کی بغاوت میں ،خط حد سے جب ادھر نکل گئ تو عذاب ِالٰہی نے انہیں صفحہ ہستی سے مٹاکر نشان عبرت بنا دیا۔فساد ایک ایسا مرض ہے جو دیمک کی طرح ہماری فکری صلاحیتوں کوچاٹ چاٹ کر ضعیف و نحیف اور بے جان کر دیتا ہے اور ہمارے دل کی وسعتوں کو انا و لاغیری اور بغض عناد کی سم قاتل سے بھر دیتا ہے۔آج کی مہذب دنیا میں فساد گھر گھر اوردَر دَرڈیرا جمائی ہے اور ہم ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ خون ریزی اور قتل و غارتگری اور ایٹمی اور جوہری کشمکش ہی فساد ہے۔
دراصل فساد انسانی اعمال کا وہ سلسلہ ہے، جس سے معاشرے کے سکون اور حقوق دونوں پائمال ہوتے ہیں۔فساد فی الارض ،جسکا ذکر متعدد بار قرآن حکیم اور احادیث نبوی میں ہوا ہے،ان تمام انسانی اعمال پے محیط ہے، جن سے ربّ ِ کعبہ نے روکا ہے۔ قرآن مقدس میں میں پارہ اول میں سورۃ البقرہ کی آیت نمبر گیارہ میں ارشاد ہوا ہے،’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپا مت کرو، تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔خبردار یہی لوگ مفسد ہیںلیکن یہ شعور نہیں رکھتے۔‘‘
تو گویا فساد کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے شعور پیدا کرنا ضروری ہے اور شعور صرف اور صرف قرآنی تعلیمات سے ہی پیدا ہو سکتا ہے۔جہاں پورے کا پورا کنبہ ہی ان تعلیمات سے دور بھی ہو اور نفور بھی ہو، اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے بستی کی بستی میں پھیلا ہوا ہو، وہاں روزمرہ اعمال کس تناسب میں الله کی بغاوت اور کس تناسب میں الله کی اطاعت میں انجام پا رہے ہوں ،اس کا اندازہ کرنا زیادہ دشوار نہیں ہے۔در اصل اُمتِ مسلمہ کی پستی اور زوال کا اصل محرک اسلامی ضابطہ حیات کے امر و نہی کی حد فاضل سے نا محرمی کے سوا کچھ بھی نہیں۔اسی بے حسی نے کرہ ارضی پے بسنے والی انسانیت کے چین و سکون کو اضطراب کے شعلوں کی نذر کر دیا ہے۔شرم و حیاء کی قبا کو چاک کردیا ہے۔شب و ستم اور جورو جفاء کے فیل مست کو بے لگام کر دیا ہے۔عدل و انصاف کی بنیادوں کو ہلادیا ہے۔مکر و فریب کے زہر کو ہماری رَگ رَگ میں داخل کر دیا ہے۔عیاشی اور بد قماشی ،لوٹ کھسوٹ اور حق تلفی ہماری ذہانت و فطانت کا لازمی حصہ بن چکا ہے۔ زمام رہبری ،رہزنون کے ہاتھ لگی ہے۔ہر نفس کے دماغ پہ زَر پرستی اور زَن مریدی کا جنون سوار ہے۔نفس امارہ کو کھلی چھوٹ ملی ہے۔مظلوم بھی اپنی حدود میں ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔عقلوں میں اتنا فتور جب پڑ جائے تو پھر ایسے سماج کو زمین نگلنے کے لئے بے قرار ہو جاتی اور تاریخ عالم میں ایسا ہی ہوا ہے بار بار۔
عصر حاضر کی اقوام و ملل ،الله کی وحدانیت اور حشر و نشر کوخلوص دل سے ماننے کے لئے کم ہی آمادہ نظر آ رہی ہیں اور حصول مال و زَر اور کر و فر میںایکدوسرے پہ بازی لے جانے کی کوشش نا تمام میں ہمہ تن مصروف ہیں۔اس عارضی دنیا کی بے ثباتی میں دل لگاناحماقت کی دلیل بھی ہے اور تباہی کی سبیل بھی ہے۔ اس ابلیسی معرکے میں اُمتِ مسلمہ کی از خود رفتگی اور غفلت شعاری تن آسانی اور تساہل پسندی بڑی حد تک تقویت بخشنے کا کردار نبھا رہی ہے اور اب جبکہ اس اُمت کی تعداد کی اکثریت ،تنزل کردار کی بدولت بے وزن ہو رہی ہے اور رفتہ رفتہ منصب امامت و قیادت اور سیادت سے معزول ہو رہی ہے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ اُمت کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں تا وقتیکہ کہ ہماری نوجوان نسل جو فی الحال اپنی رفتاروگفتار اور دستار سے مغربی تہذیب کی شیدائی نظر آ رہی ہے،اپنے اس طرز عمل کو ترک کرکے اپنے اسلاف کی طرز حیات کو حرز جان بنائے۔ شومئی قسمت کہ ہمارے نوجوان لاطینی زبان کے چار الفاظ کے حصول اور پھر کسی سرکاری نوکری میں جگہ پانے کے ساتھ ہی کجروی کا نمونہ بن جاتے ہیں اور اگر کہیں کوئی با اثر عہدہ مل گیا تو پھر نرالی ادا کاری کی دھوم مچ جاتی ہے۔جیسے بن پڑے دولت کی دیوی کی پرستش کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔دم قدم عیاشی کا انتظام و انصرام ،بلند و بالا محلات ،لال و جوہر اور سونے چاندی کے زیورات کی بھر مار وغیرہ و غیرہ۔ جی ہاں! کچھ ایسا ہی کر رہی تھی قوم عاد کہ وہ صلابت بدن اور مہارت فن میں تھے یکتائے روزگار !جسمانی قوت اتنی زیادہ کہ چلتے تو زمین میں پاؤں دھنس جاتے اور سنگلاخ پہاڑوں کو ناخنوں سے تراش کر اپنا مسکن بناتے ۔مگر صلابت بدن اور مہارت فن نے احکام ِالٰہی سے بے نیاز کر دیا تھا۔ظاہری شان و شوکت اور مال و دولت پر مرمِٹ رہے تھے۔عاقبت کے انجام کی فکر ان کے دل و دماغ سے نکل چکی تھی۔داعی حق کی دعوت کو ٹھکراتے رہے۔ حالت جب ایسی ہو تو پھر الله کے غیض و غضب کو کون روک سکتا ہے۔ اسکے برعکس ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ محبت مخلوق کی نہیں بلکہ خالق کی دلنشیں ہو۔
(رابطہ نمبر 8493990216.)
[email protected]