ساریہ سکینہ
سمراہ کو نہیں معلوم تھا کہ سوشل میڈیا اکاؤنٹ کیسے چلاتے ہیں ۔ اس نے اگرچہ اپنے والد سے ضد کر کے نیا اور مہنگا موبائل فون امتحان کی کامیابی پر تحفے کی صورت میں مانگا تھا، مگر چلانے کے لئے اس نے اپنی سہیلی سے مدد لی تھی۔
سوشل میڈیا اکاؤنٹ بناتے ہی اس کو بہت ساری فرینڈ ریکویسٹ آنے لگی۔ وہ صرف ان کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کرتی تھی جن کو وہ جانتی تھی کیونکہ اس کی سہیلی نے اس سے کہا تھا کہ اجنبی لوگوں کی ریکویسٹ قبول نہیں کرنا کیونکہ بیشتر لوگ جعلی اکاؤنٹ بنا کر لوگوں کو ٹھگتے ہیں۔ اس لئے وہ صرف جاننے والوں کے ساتھ ہی چیٹ کرتی تھی۔ لیکن بہت جلد اس کو انجان اکاؤنٹ سے بھی میسجز آنے لگیں۔ لیکن وہ ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہ دیتی تھی۔
سمراہ امتحان کی وجہ سے دو دن تک اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو دیکھ نہ پائی۔ لیکن جیسے ہی اس نے دیکھا تو میسجز کا ایک انبھار آیا ہوا تھا۔
“ہیلو ۔۔۔۔۔۔! ہیلو جی ۔۔۔۔۔! آپ کہاں سے ہیں ۔۔۔۔۔۔؟ آپ جواب کیوں نہیں دے رہی۔۔۔۔۔۔ ؟ کیا ہم سے کوئی گستاخی ہو گئی ہے ۔۔۔۔۔؟”
ایسی میسجز کئی انجان اکاؤنٹوں سے آتی رہتی تھیں۔ لیکن ان میں سے ایک اکاؤنٹ ایسا تھا جس نے کچھ عجیب و غریب میسج کی تھی۔
“تم میرا فرینڈ ریکویسٹ ایکسیپٹ کیوں نہیں کرتی ہو ۔۔۔۔۔۔؟ تم کیا کسی ریاست کی شہزادی ہو ۔۔۔۔۔ ؟ جو اتنا بھاؤ کھا رہی ہو ۔۔۔۔۔؟”
پہلے تو سمراہ نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ لیکن اس نے ایک دفعہ پروفائل کی اور نظر ڈالی۔ پروفائل کا نام عامر احمد تھا۔ اس کی پروفائل کی تصویر دیکھ کر ہی سمراہ متاثر ہو گئی۔ آج کے زمانے کا نوجوان تھا۔ کافی حسین۔
اس نوجوان نے کئی تصویریں مختلف جگہوں پر لی تھیں اور ان تصاویر کو دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ دُبئی میں ہی لی گئی تھیں ۔ سمراہ نے جلدی سے فون بند کر دیا کیونکہ اس کو وہ تصویریں پسند آنے لگی تھیں۔
وہ روز اس کو کئی میسجز کرتا تھا اور سمراہ کو ان میسجز کا انتظار رہتا تھا۔ وہ بنا جواب دیئے ہی ان میسجز کو پڑھتی۔ وہ عجیب و غریب میسج بھیجتا اور سمراہ ان کو پڑھ کر من ہی من میں مسکراتی ۔ اس کے جذبات اُمڑ رہے تھے۔
سمراہ نے ایک دن اس کی فرینڈ ریکویسٹ قبول کر لی۔ تو یک دم سے میسج آئی۔
“تھینک یو پرنسس ۔۔۔!” (شکریہ شہزادی)
سمراہ چونک گئی۔ مانو وہ جیسے انتظار کر رہا تھا۔ یا پھر اس کو معلوم تھا کہ وہ فرینڈ ریکویسٹ قبول کرنے والی تھی۔
“یوآر ویلکم ۔۔۔۔!” (آپ کا استقبال ہے۔)
سمراہ نے دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ پہلی بار جواب دیا اور اب وہ تیار تھی ایک نئی دوستی کو آگے بڑھانے کے لئے۔
دھیرے دھیرے ان کے میسج کا سلسلہ آگے بڑھنے لگا اور شام کو وہ دونوں چیٹ کرنے لگے۔ اور آہستہ آہستہ عامر اپنی زندگی سے جڑی ہر ایک بات اور ہر راز سمراہ کو بتانے لگا۔ سمراہ ان سب باتوں سے متاثر ہونے لگی تھی۔ سب سے زیادہ اس بات نے متاثر کیا تھا، جس بات سے عامر کی زندگی تکلیف دہ بن گئی تھی۔
اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی تین بہنیں تھیں اور وہ ان کا ایک اکیلا بھائی تھا۔ اس کے والد کا بزنس انگلینڈ تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر ایک دفعہ اس کا والد جب کئی سالوں تک اپنے گھر واپس نہیں لوٹا تو اس کی ماں نے پتہ کروایا۔ تو معلوم ہوا کہ اس کے والد نے ایک انگریزی عورت سے دوسری شادی کر لی تھی۔ اور کسی وجہ سے عامر کے والد فوت ہو گئے اور ان کی انگلینڈ کی ساری جائیداد اس انگریزی عورت نے اپنے نام کروا کر کسی اور کو بیچ کر دی کہیں اور چلے گئی تھی۔ جس کی وجہ سے عامر کی ماں نے کافی مشکلات سے اپنی بچوں کی پرورش کی تھی اور انہیں پڑھا لکھا کر اس قابل بنایا کہ عامر آج ایک دُبئی کی اچھی اور بڑی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کر رہا تھا۔
یہ مسیجز پڑھ کر سمراہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔ اس روز سمراہ بہت جذباتی ہو گئی تھی اور اس نے خود سے وعدہ کیا تھا کہ کچھ بھی ہو جائے وہ تاعمرعامر کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ اس طرح سے وہ قریب سے قریب تر ہوتے چلے گئے۔ سمراہ نے بھی اُسے اپنی زندگی کی ہر چھوٹی بڑی بات بتائی ۔
وہ دونوں ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ اب وہ ان لائن کالز بھی کرتے تھے اور ایک دوسرے سے بات بھی کرتے تھے۔ سمراہ بہت خوش تھی۔
ایک روز اچانک سے اس کی میسج آنی بند ہو گئی۔ سمراہ جیسے پاگل ہو گئی تھی۔ وہ عامر کو میسج پہ میسج کرنے لگی مگر وہاں سے کوئی جواب نہیں آ رہا تھا۔ یہ سلسلہ تقریباََ تین چار دن تک رہا۔ جب وہ تھک گئی تو اس نے میسج کرنا بند کر دیا۔ پھر اچانک ایک میسج آئی۔ جس کو پڑھ کر سمراہ بے چین ہو گئی۔ اس میں لکھا تھا۔
“میں بیمار ہوں ۔۔۔ بہت بیمار ۔۔۔۔۔!”
“کیسے۔۔۔؟ کیا ہوا۔۔۔۔۔۔؟مجھے بتاؤ۔۔۔۔! تم نے میسج کیوں نہیں کی۔۔۔؟”
میں نے تم سے ایک بات چھپائی ہے۔۔۔۔۔ مجھے جو بھی تنخواہ ملتی ہے۔ وہ ساری میں اپنی ماں کو بھیجتا ہوں۔۔۔۔۔ میری بہنوں کی شادی میں کافی قرضہ لیا تھا۔۔۔۔ وہی اتارنا پڑ رہا ہے۔۔۔۔۔ اب میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اپنے لیئے دوا لا سکوں۔۔۔۔۔ اور اس بار فلیٹ کا کرایہ بھی باقی ہے۔۔۔۔۔۔ اس وقت مجھے بیس ہزار روپے کی سخت ضرورت ہے۔ لیکن یہاں پر میں کسی سے مانگ نہیں سکتا۔ شاید اسی صدمے سے میں کافی بیمار ہو گیا ہوں۔
“اکاؤنٹ نمبر بولو ۔۔۔۔۔” سمراہ نے لکھا، وہ بے چین تھی۔
عامر نے اکاؤنٹ نمبر لکھ بھیجا اور کہا ،
“میں تمہارا احسان کبھی نہیں بھولوں گا ۔۔۔۔!”
سمراہ نے نہ آگے سوچا نہ پیچھے، اور اسی وقت عامر کے اکاؤنٹ میں بیس ہزار روپے بھیج دیئے۔
جذباتی سمراہ نے میسج کی، “کیا پیسے مل گئے ۔۔۔؟”
اور تب ہی ساری میسجز غائب ہو گئیں اور ایک میسج نمودار ہوئی۔
“یو کانٹ ریپلائی ٹُ دِس کنورسیشن۔۔۔۔” ( آپ اس گفتگو کا جواب نہیں دے سکتے)
اور وہ سمجھ گئی کہ اسے بلاک کر دیا گیاہے۔
���
حضرتبل، سرینگر،کشمیر
[email protected]