جموںوکشمیرمیں بیروزگاری کے سنگین بحران پر قابو پانے کیلئے نوجوانوں کو صنعتی سیکٹر کی جانب راغب کرنے کی کوششوں میں محو یوٹی حکومت کی صنعتی شعبہ کے احیائے نو کے تئیں سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں خود محکمہ صنعت و حرفت روبہ زوال ہے وہیں اس محکمہ اور دیگر حکومتی محکمہ جات کے زیر نگین چلنے والی صنعتی کارپوریشنیں اور کمپنیاں مسلسل خسارے سے دوچار ہیں اور حکومت کے لاکھ دعوئوں کے باوجود بھی ان نیم خودمختار صنعتی اداروں کی حالت تبدیل نہیں ہورہی ہے ۔
زوال سے دوچار ایسی ہی کمپنیوں میں جموں وکشمیر انڈسٹریز لمیٹیڈ بھی شامل ہے جو اکتوبر1963میں حکومت کی سرپرستی میں اس غرض سے قائم کی گئی تھی کہ یہ کمپنی ریاستی حکومت کے تابع رہ کر صنعتی کارخانوں کو کچھ اس طرح چلائے گی تاکہ صنعتی سیکٹر کی بنیادیں استوار کرنے کے ساتھ ساتھ وہ منافع بخش ثابت ہوں۔ اگرچہ اپنے قیام کے وقت16پیداواری یونٹوں کو اس کمپنی کے ساتھ منسلک کیاگیا تاہم آج حالت یہ ہے کہ جموں وکشمیر انڈسٹریز لمیٹڈ نامی یہ کمپنی محض تین پیداواری یونٹوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے ۔اس کے بعد نقصان سے دوچار صنعتی یونٹوں کی بحالی کیلئے حکومت نے مذکورہ کمپنی کی اراضی تک کو بیچنا شروع کیا اور افسوس کا مقام ہے کہ کئی سرکاری محکمے کمپنی کی زمین ہڑپ تو کر گئے لیکن آج تک معائوضہ ادا نہ کیا ۔
یوٹی کا پولیس محکمہ اس کمپنی سے حاصل شدہ اراضی کے عوض کمپنی کا47کروڑ روپے کا مقروض ہے جبکہ محکمہ تعمیرات عامہ پر 9کروڑ اور اے آر ائی اینڈ ٹرینگس محکمہ پر 3کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ پولیس محکمہ نے بارہمولہ اور بمنہ سرینگر میں 130کنال سے زائد اراضی جموں وکشمیر انڈسٹریز سے خرید تو لی لیکن معائوضہ کے مد میں51کروڑ روپے کی بجائے صرف 4کروڑ روپے اد اکئے اور ابھی بھی 47کروڑ ادا کرنے سے قاصر ہے حالانکہ پولیس نے یہ اراضی2005-06میں اپنی تحویل میں لی ہے اور10برس گزر جانے کے باوجود بھی اراضی کا معاوضہ ادا نہیں کررہا ہے ۔اسی طرح محکمہ تعمیرات عامہ نے سلک فیکٹری راجباغ سے منسلک تقریباً19کنال اراضی 1998میں مذکورہ نیم خود مختار صنعتی ادارے سے حاصل کی، جس کے عوض تعمیرات عامہ محکمہ کو صرف9.27کروڑ روپے ادا کرنے تھے مگر 18برس گزر جا نے کے باوجود بھی یہ رقم واجب الادا ہے جبکہ اے آر آئی اینڈ ٹرائنگس محکمہ نے پانپور جوائنری ملز سے منسلک زمین تو برسوں پہلے اپنی تحویل میں لے لی لیکن 3کروڑ روپے کا معاوضہ ادا کرنے میں پس و پیش سے کام لیاجارہا ہے ۔
جب صورتحال ایسی ہو تو صنعتی احیائے نو کا خواب دیکھنا احمقوں کی دنیا میں رہنے کے مترادف ہی قرار دیا جائے گا۔یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایک طرف حکومت جموں وکشمیر انڈسٹریز لمیٹیڈ کے احیائے نو کیلئے منصوبوں پر منصوبے بناتی جارہی ہے تو دوسری جانب اسی حکومت کے مختلف محکمے احیائے نو کی سمت میں درکار آنے والی رقوم ادا کرنے سے منکر ہیں ۔یہاں آئے روز ناجائز تجاوزات ہٹانے کیلئے مختلف محکمے سرگرداں نظر آتے ہیں اور اس کی آڑ میں غریبوں اور بے بسوں کے آشیانے مسمار کرنے سے دریغ نہیں کیاجارہا ہے لیکن اُن محکموں سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے جنہوں نے ناجائز طور سرکاری اراضی پر قبضہ جمالیا ہے ۔پولیس محکمہ امن و قانون کی بالادستی کیلئے قائم کیاگیا ہے تاہم جب یہی محکمہ اراضی ہڑپنے میں ملوث ہو تو عام لوگوں سے بازپرس کی کونسی دلیل بن سکتی ہے ۔ایک زمانے میں جموں وکشمیر انڈسٹریز لمیٹیڈ نامی یہ حکومتی کمپنی اون ،ریشم اور جوائنری کے شعبہ میں اپنا لوہا منوا چکی تھی اور نہ صرف مقامی سطح پر کمپنی کے تیار کردہ مال کی کافی طلب تھی بلکہ بیرون ریاست بھی مال بیچا جاتا تھا لیکن آج یہ کمپنی آخری سانسیں گن رہی ہے ۔
نجی سیکٹر میں صنعتی شعبہ کے تئیں نوجوانوں کو کیسے راغب کیا جاسکتا ہے، جب حکومتی سیکٹر میں صنعتی شعبہ زوال پذیر ہوچکا ہو۔اگر حکومتی سطح پر صنعتی شعبہ فعال ہوتا تو وہ نوجوانوں کو نجی سیکٹر میں صنعتی یونٹ قائم کرنے کی ترغیب دے سکتا تھا تاہم جب تمام درکار وسائل کے باوجود حکومتی سیکٹر کی صورتحال مایوس کن ہو تو بنکوں سے قرضہ لینے والے نوجوان کیوں کر صنعتی سیکٹر میں قسمت آزمائی کرنے کا جوکھم اٹھائیں ۔
وقت آچکا ہے کہ حکومت کو کاغذات پرپُر کشش منصوبے بنانے کی بجائے عملی طور زمینی سطح پر ٹھوس اقدامات کرناہونگے ۔اس ضمن میں سب سے پہلی کوشش حکومت کی یہ ہونی چاہئے کہ سرکاری سیکٹر کے صنعتی شعبہ کو دوبارہ پٹری پر واپس لایا جائے اور اسے منافع بخش بنایا جائے۔جب سرکاری سیکٹر کی حالت بہتر بنے گی تو نجی سیکٹرمیں سرمایہ کاری خود بخود بڑھے گی ۔
امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت ایک کے بعد ایک صنعتی پالیسی بنانے کی بجائے صرف ایک جامع اور مربوط پالیسی بنائے گی جس میں سرکاری و نجی صنعتی سیکٹر کا مکمل احاطہ کیاجائے اور بیک وقت دونوں سیکٹروں کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کئے جائیں تاکہ کسی حد تک بیروزگاری کے بحران سے نمٹنے کے علاوہ روزگار کے نئے وسائل پیدا ہو، نیز ترقی کی شرح نمو میں بھی اضافہ ہوسکے ۔جتنا جلد اس پر عمل ہوگا ،اتنا ہی بہتر ہوگا اور جتنی اس میں تاخیر کی جائے گی ،اتنا ہی جموںوکشمیرصنعتی سیکٹر پچھڑتا چلا جائے گا جو کسی بھی طوراس یونین ٹریٹری اور اس کے باسیوں کے مفاد میںنہیں ہے۔