عاصف بٹ
وارڈون (کشتواڑ)// خطہ چناب کے کشتواڑ ضلع کے دور افتادہ علاقہ مڑواہ واڑون کے لوگ آج بھی اُس دن کو کوس رہے ہیں جب26فروری2019کواُس وقت کے مرکزی وزیر بجلی ،نئی و قابل تجدید توانائی آر کے سنگھ نے اُس وقت کے گورنر کے مشیر کے کے شرما ،کمشنر سیکریٹری بجلی ہردیش کمار اور اُنکی ٹیم کونئی دہلی میں منعقدہ وزرائے بجلی کانفرنس کے حاشئے پر جموں وکشمیر میں صد فیصد بجلی کی فراہمی کا ہدف حاصل کرنے پر ایوارڈ سے نوازا کیونکہ ہزاروں نفوس پر مشتمل یہ علاقہ آج بھی بجلی کو ترساں ہے ۔آزادی کے76سال بعد بھی یہاں بجلی کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں ہے اور لوگ موم بتیوں ،چوب چراغ اور شمسی توانائی کے صدقے اب شب و روز کاٹ رہے ہیں۔ سوبھاگیہ اور دین دیال سکیم کے تحت کروڑوں روپے ڈھکار نے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس علاقہ کو ابھی تک کسی رسیونگ سٹیشن یا گرڈ سے جوڑا ہی نہیں گیا ہے لیکن علاقہ کے اندر دکھاوے کیلئے کئی جگہوں پر بجلی کے کھمبے نصب کرکے تاریں لگائی گئی ہیں۔
واڑون اور مڑواہ کی20ہزار کی آبادی کیلئے یہ صورتحال اس کیلئے بھی تکلیف دہ ہے کیونکہ کشتواڑ ضلع میں سب سے زیادہ بجلی پیدا ہورہی ہے اور وہی بجلی ناردرن گرڈ کے ذریعے شمالی ہند کو روشن تو کرتی ہے لیکن ان پن بجلی پروجیکٹوں کے بغل میںیہ وسیع علاقہ آج بھی گھپ اندھیرے میں ہے۔ علاقہ واڑون کے مقامی لوگوں نے کشمیر عظمیٰ کے اس نامہ نگار کو بتایا کہ علاقے کے ساتھ سیاسی جماعتوں و انتظامیہ کے افسران نے ہر وقت وعدے کئے لیکن کبھی یہ وعدے شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔انکا کہناتھا کہ اگرچہ علاقہ ضلع صدر مقام سے محض چند سو کلومیٹرکی دوری پر واقع ہے لیکن اسکے باوجود یہاں کی عوام کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کیا جاتا رہاہے۔ انہوں نے کہا’’اکیسویں صدی میں جہاں ملک چاند پر پہنچ گیااور ملک نے تعمیر و ترقی سے پوری دنیا مین اپنا لوہا منوایا ،وہیں اسی ملک کی ایک وسیع آبادی بجلی کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس رہی ہے‘‘۔ انکا کہناتھا کہ اگرچہ عوام نے ہزار بار اس مسئلہ کوحکام کی نوٹس میں لایا لیکن یقین دہانی کے سوا کچھ نہ مل سکا اورواڑون کی بیس ہزار آبادی آج بھی گھپ اندھیرے میںہے۔لوگوں نے مزید کہا’’محکمہ بجلی سنگ دلی اورہمارے زخموں پر نمک پاشی کا عالم دیکھیں کہ پیچھے کہیں سے کسی رسیونگ سٹیشن یا گرڈ سے بجلی کی ترسیلی لائنیں واڑون نہیں پہنچی ہیں لیکن اندر علاقہ میں چند مقامات پر پول و تاریں لگائی گئی ہیں جوصرف دکھانے کیلئے ہیں اور اب ان کی بھی حالت انتہائی ابتر بنی ہوئی ہے‘‘۔ ایک مقامی نوجوان امتیاز احمد نے بتایا’’ چار سال قبل چند علاقہ جات میں ٹھیکیداروں نے بجلی کے پو ل لگائے اوران کھمبوںپر تاریں بھی نصب کیں جو ایک سال بعد ہی استعمال کئے بغیر گرگئے‘‘۔انہوںنے الزام لگایاکہ محکمہ نے ٹھیکیداروں کو فائدہ پہنچانے کیلئے انھیں کام دیا اوراس کام میں غیر معیاری مواد کا استعمال کرکے صرف پیسے نکالے گئے جبکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ بجلی کے پول بیشتر مقامات پر گر گئے ہیں اور اب چند ہی پول کھڑے ہیں جبکہ تاروں کا تو نام و نشان تک نہیں رہاہے۔اس ضمن میں پچاس سالہ دین محمد نے بتایا ’’ پول تو علاقے میں لگے اور ا ن پر تاریں بھی ہیں تاکہ عوام خوش ہو کہ علاقے میں بجلی پہنچائی جائے گی لیکن تعجب کی بات ہے کہ بجلی کی سپلائی کہا ںسے دی جائے گی کیونکہ پیچھے کہیں سے بجلی آہی نہیں رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ نزدیک ہی کہیں بجلی تیار کررہا ہے جو پھر ان علاقہ جات میں سپلائی کی جائے گی کیونکہ علاقہ میں کہیں سے بجلی کی مین سپلائی لاین ہی نہیں آتی ہے اوروہ لائن ہنوز سینکڑوں کلومیٹردور ہے۔محکمہ ہمارے ساتھ مذاق کررہا ہے۔حالات یہ ہے کہ لوگ آج بھی شمع اور چوب چراغ جلاکر اپنی راتوںکو روشن کرتے ہیں یا پھر سولر لائٹس کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔لوگوںکے مطابق علاقہ کو نام کیلئے سب ڈویژن کا درجہ تو دیا گیا لیکن لوگوںکے حالات نہیں بدلے اور آج بھی وہی حالت ہے جو ستر سال قبل تھی۔گیارہوں جماعت کے ایک طالب علم نے بتایا کہ انھیں سکالر شپ فارم بھرنے کیلئے ایک سو کلومیٹر کا سفر طے کرکے اننت ناگ جانا پڑا کیونکہ علاقے میں بجلی و مواصلاتی نظام ہی موجود نہیں ہے۔انکا مزید کہناتھا’’ہمیں سرکاری و دیگر سکیموں کے بارے میں ایک ماہ بعد پتہ چلتا ہے جب انکی معیاد ختم ہونے کو ہوتی ہے۔ہم پڑھنا چاہتے ہیں اور سیول سروسز کا امتحان پاس کرنا چاہتے ہیں لیکن بجلی نہ ہونے کے سبب تعلیم اثرانداز ہورہی ہے‘‘۔انہوںنے مزید کہا’’ میرے والد مزدوری کرتے ہیں جو مشکل سے گھر چلاپاتے ہیں، ہم سولرخرید نہیں سکتے۔ اگرچہ دن میں پڑھ لیتا ہو لیکن رات کے وقت پڑھنا نا ممکن ہے کیونکہ علاقے میں شام ہوتے ہی ہر سو تاریکی چھا جاتی ہے اور پورا علاقہ اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے‘‘۔انکامزید کہناتھا’’اس وقت ضلع کے اندر ا یک پاور پروجیکٹ بجلی تیار کررہا ہے جبکہ دیگر تین پر کام جاری ہے لیکن اسکے باوجود ہمیں بجلی نصیب نہیں۔ہم مرکزی سرکار و یوٹی انتظامیہ سے سے علاقے میں جلد بجلی کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہیںتاکہ علاقے کی عوام کے ساتھ انصاف ہواوروہ بھی خود کو اس ملک کا شہری محسوس کرسکیں ورنہ ہمیں لگتا ہے کہ ہمیں ترقی کی دوڑ سے جان بوجھ کر محروم رکھاجارہا ہے اور شاید حکام کی نظروں میں ہم اس ملک کے شہری ہی نہیں ہیں‘‘۔انہوںنے کہا کہ اگروہ اس ملک کے شہری ہیں تو برابر کے حقوق رکھتے ہیں،لہٰذا انہیں بھی ملک کے باقی عوام جیسی سبھی سہولیات دستیاب کرائی جائیں تاکہ وہ بھی ترقی کے سفر میں شامل ہوسکیں۔