اشفاق سعید
سرینگر // ارضیات کے سائنسدانوں ، فروٹ گروورس اور محکمہ باغبانی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فروری کے مہینے میں اگر درجہ حرارت میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہواتو میوہ صنعت بری طرح متاثر ہوگی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال تشویشناک صورتحال کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ رات کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کئی ڈگری نیچے درج ہورہا ہے، لیکن صورتحال اگر اسی طرح رہی اور درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تو یقینی طور پر برے اثرات مرتب ہونگے۔امرسنگھ کالج میں شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر پرویز احمد خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ موسمی تبدیلی کی بنیادی وجہ گلوبل وارمنگ ہے اور مستقبل میں اس کے زراعت اور باغبانی و دیگر شعبہ جات پر اثرات پڑیں گے۔انہوں نے کہا کہ بارش یا برفباری نہ ہونے سے درختوں میں نہ صرف بیماریاں لگیں گی بلکہ وہ کمزور پڑ یں گے اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے اوپری تہہ سوکھ جائے گی۔سکاسٹ میں شعبہ ویجی ٹیبل سائنس کے ماہر ڈاکٹر اعجاز ملک نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پانی ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر انسان ،حیوان اورپیڑ پودے زندہ نہیں رہ سکتے ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ خشکی کی صورتحال ایسی رہی تو سبزیوں کیلئے نقصان دہ کیڑے مکوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی آئے گی ۔انہوں نے کہا کہ موجودہ سیزن میں بارشوں کا نہ ہونا بدترین ماحولیاتی تبدیلی ہے جس کا براہ راست اثر زراعت پر پڑسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جن سبزیوں کو ٹھنڈے موسم میں کم درجہ حرارت کی ضرورت تھی انہیں جنوری میں دن کا درجہ حرارت زیادہ ملا اور ان کی پیدوار متاثر ہو سکتی ہے ۔محکمہ ہارٹیکلچر کے ماہر منظور احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی فروری کا مہینہ باقی ہے اور ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا اس میں بارش یا برف باری ہو گی یا نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ فروری مارچ میں بارش اور برفباری کی شرح سے میوہ صنعت کی آنے والی صورتحال کا پتہ لگے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ خشک موسم میوہ صنعت کیلئے سازگار نہیں ہے ،مگر رات کے درجہ حرارت میں گراوٹ سے یہ اندازہ لگ رہا ہے کہ ایسی صورتحال میں ہم بچ سکتے ہیں، لیکن ابھی مزید کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔کشمیر فروٹ گروورس ایسوسی ایشن سوپور فیاض احمد عرف کاکا نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ وادی کے کسی بھی علاقوں میں میوہ دار درختوں پر شگوفے نہیں پھوٹے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بیشک کچھ علاقوں میں بادام کے درختوں پر شگوفے پھوٹنے کی اطلاعات ہیں لیکن اس طرح بیشتر علاقوں میں نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ خوبانی کے درختوں پر کہیں کہیں شگوفے پھوٹے ہیںلیکن ابھی مجموعی طور پر میوہ درختوں یا باغات کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن چلہ کلاں کے40روز کے دورانیہ کے بعد اگر فروری کے مہینے میں رات کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا تو تشویشناک صورتحال بن جائے گی۔انہوں نے کہا کہ رات کا درجہ حرارت میوہ درختوں کیلئے فی الحال موزون ہے اور فروری میں بھی رات کے دوران ٹھنڈ کی حالت برقرار رہنی چاہیے۔انکا کہنا ہے کہ اگر فروری میں درجہ حرارت میں غیر متوقع طور پر اضافہ ہوتا ہے تو میوہ درختوں پر شگوفے پھوٹ پڑیں گے اور میوہ صنعت تباہی سے دوچار ہوگی۔انہوں نے کہا کہ میوہ دار درختوں پر شگوفے صرف ایک بار پھوٹتے ہیں اور فروری میں لازمی طور پر برفباری اور بارش ہونی چاہیے۔کشمیر ویلی فروٹ گروورس ایسوسی ایشن چیئرمین بشیر احمد بشیر کا کہنا ہے کہ پہلے ہی یہ سیکٹر گذشتہ سال کی ژالہ باری سے تباہ ہوا اور اب مسلسل خشک سالی رہی سہی کسر نکال رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ موسم سرما کی برف ضروری ہے کیونکہ یہ فصلوں کو ٹھنڈ کا دورانیہ فراہم کرتی ہے اور زمین کو نم بھی رکھتی ہے اور گرم مہینوں میں آبپاشی کی سہولیات کو بھی یقینی بناتی ہے۔۔معلوم رہے کہ گذشتہ سال پہلے ژالہ باری کے نتیجے میں سیب کی پیداوار میں 40 فیصد کمی ریکارڈ ہوئی جبکہ گلاس ، ناشپاتی ، اخروٹ اور دیگر فصلوں کو شمال وجنوب میں 60فیصد کا نقصان ہوا ۔ محکمہ باغبانی نے جو عبوری تخمینہ متاثرہ علاقوں کے دورے کے دوران لگایا تھا اس میں اننت ناگ ، بارہمولہ ، شوپیان ، بڈگام ،کپوارہ ،پلوامہ، کولگام میں 30سے70فیصدکے نقصان کی تصدیق کی گئی تھی ۔ باغبانی شعبہ جموں وکشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اور معیشت میں سالانہ تقریباً -5000 کروڑ کا حصہ ڈالتی ہے۔باغبانی کا شعبہ مجموعی گھریلو پیداوار میں تقریباً 7% کا حصہ ڈالتا ہے۔239 نجی رجسٹرڈ نرسریاں 13 لاکھ پودے تیار کرتی ہیں۔7 لاکھ خاندان / 33 لاکھ جانیں تجارت میں شامل ہیں۔باغات کا ہر ہیکٹر ہر سال 400 آدمی دن پیدا کرتا ہے۔فی الوقت 2لاکھ 75ہزارمیٹرک ٹن اخروٹ کی پیداوار نکلتی ہے، جبکہ سیب کی پیداوار 18لاکھ 83ہزار میٹرک ٹن ہے ۔اسی طرح بادام کی پیداوار 3ہزار1سو9میٹرک ٹن ہوتی ہے ۔ چری (کلاس ) کی اراضی 28سو ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے جس میں سے 11ہزار میٹرک ٹن میوہ نکلتا ہے ۔ انگور کی اراضی 332ہیکٹر پر پھیلی ہوئی ہے اور 9سو ٹن انگور سالانہ نکلتا ہے۔