ایف آزاؔد دلنوی
فرمان آتے ہی جنید ؔمنوں بوجھ تلے خود کو دبا ہوا محسوس کرنے لگا تھااور اس بوجھ سے بچ نکلنے کی امید کم ہی نظر آرہی تھی۔اُسے اپنی فکر تو بالکل بھی نہ تھی کیونکہ اُس نے زندگی بہت جی لی تھی، اچھے دن دیکھے راحت دیکھی۔ اُسے فکر تھی تو اپنے بچوں کی۔اُن کی تعلیم ‘اُن کے مستقبل اور اُن کے روزگار کی ۔اس کو اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ بچوں کا کیریربنانے میں خرچ ہوجاتا کیونکہ وہ انھیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز دیکھنا چاہتا تھا۔اُ س کا یہ خواب ابھی تشنئہ تعبیر ہی تھاکہ فرمان آیاجو اس کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگا تھا۔اسے چنتا ہو اٹھی اور گھر میں خاموش بت کی طرح ساکت رہنے لگا۔ کسی کام میں من نہیں لگ رہا تھا۔ڈیوٹی پر جاتے وقت خود ہی سے بڑبڑاتا رہتا۔
’’یہ ہمارے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ آج تیس سال بعد یہ فرمان آیاجب کہ ریٹائرمنٹ میںاب چند ہی برس رہ گئے ہیں‘‘
جنیدؔ ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے بھی خودمیں ہی گم رہتا۔بیوی سمجھ بیٹھی کہ شاید بچوں کے لئے کوئی بڑا پلان سوچ رہا ہے اس لئے اس نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا۔کئی ہفتے گزرے اس دوران جنید ؔنے نائی کے پاس جانا بھی چھوڑ دیا ۔داڑھی لمبی ہوئی چہرے سے اداسی جھلکنے لگی تو رقیہ ؔتذبذب میں پڑی ۔اب اُسے اپنے شوہر کی اداسی کاٹنے کو آتی ۔وہ ڈرائنگ روم میںچپ چاپ بیٹھا سوچوں میں غوطہ زن تھا کہ رقیہؔ چائے کی پیالی ٹیبل پر رکھتے ہوئے اسے پوچھ بیٹھی ۔
’’خیریت تو ہے۔ آپ اتنے اداس کیوں رہتے ہیںکیا بات ہے۔‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں ہے۔‘‘
رقیہؔ چائے کی پیالی ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولی
’’کوئی تو بات ضرور ہے جو آپ چھپا رہے ہیں۔خیر آپ چائے پی لیجئے ۔اللہ سب ٹھیک کرے گا۔‘‘
جنید ؔ مصنوعی ہنسی بکھرتے ہوئے چائے پینے لگاتو رقیہؔ پھر بولی
’’کل بچے بھی کہہ رہے تھے کہ ابا کئی دنوں سے کھوئے کھوئے سے رہتے ہیں۔‘‘
پھر رقیہ ؔ کچن میں جاکر اپنے کام میں مصروف ہوئی۔اس کے جاتے ہی جنیدؔ
ؔپھر سوچ میں پڑا۔
’’میں عمر کے جس پڑائو سے گزر رہا ہوں اس میں یہ فطری بات ہے کہ انسان کی یاداشت کمزور پڑتی ہے، سوچنے کی صلاحیت بھی کم ہو جاتی ہے پھراس فرمان پر انسان کیسے کھرا اُترے۔یہ سراسر زیادتی ہے۔‘‘
جنیدؔ کی پریشانی دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی تھی کیونکہ اس فرمان کا اطلاق بھی زور پکڑتا نظر آرہا تھا ۔مگر کچھ سماجی تنظمیںاس فرمان کی مخالفت میں آگے آئیںاور کچھ سیاسی عہدداربھی اس کو رد کرنے پر زور دیتے رہے بقول ان کے اس فرمان کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کیونکہ ملازمیں کی تقرری کے وقت وہ ایسے عمل سے گزر چکے ہوتے ہیں۔جنیدؔ پریشانیوں میں الجھتا ہی جارہاتھا اور اس اسٹیج پر خدا نخواستہ اگر کوئی انہونی بات ہو جاتی ہے تو وہ اس کی برداشت پرتلوار گرنے کے مترادف ہوگا۔ایک دن جنیدؔ ڈرائنگ روم میں بیٹھے بیٹھے سوچ رہا تھا۔
’’آج تیس سال مجھے بہ حیثیت استادکام کرتے ہوئے گزرے۔آج تک میرا کام کسی کو نظر ہی نہیں آیا۔سنسس کروانا ہو تو استاد ‘ ووٹر لسٹ بنوانا ہو تو استاد‘ الیکشن کی ٹریننگ کروانی ہو تو استاد ‘ الیکشن کروانا ہو تو استاد‘ سڑ کوں پر چوکیداری کروانی ہو تو استاد۔ہر بار ایک نئی آزمائش سے گزرنے کے بعد بھی آزمائشیں ختم ہی نہیں ہوتیں۔‘‘
جنیدؔ ان ہی سوچوں میں تھا کہ رقیہؔ بچوں کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آئی اور جنیدؔ کو حلقے میں لیتے ہوئے بولی
’’آپ اتنے پریشان کیوں رہتے ہیں دیکھئے اپنا کیا حال بنا کے رکھا ہے۔ اپنی وضع قطع ٹھیک بنائیے آپ کچھ بولتے بھی نہیں ہیں۔‘‘
ماں کی بات کاٹتے ہوئے بیٹا بول پڑا
’’ابا آپ خاموش کیوں ہیںکچھ تو بتائیے کیا مسئلہ ہے ہم سب مل کر کوئی حل ڈھونڈئیںگے۔‘‘
جنیدؔ روہانسی آواز میں بولا
’’بیٹے تم اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتے ہویہ سب مجھے خود ہی فیس کرناہے‘‘
’’لیکن ابا کچھ تو بتائیے کہ آخر مسئلہ کیا ہے‘‘
’’بیٹے دراصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک فرمان آیا ہے جس کی رو سے ہم سے رٹن ٹسٹ لیا جائے گااور جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ سب ٹھا ٹھا کر کے ہنس پڑے بہن بھائی سے پنجہ مارتے ہوئے بولی
’’ابا کو رٹن ٹیسٹ دیناہے۔اب آئے گامزہ۔‘‘ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوئے اور دور دور تک ہنسی کی گونج سنائی دی۔
جنیدؔ سر پکڑتے ہوئے زور سے چلایا
’’ارے چپ ہوجائو۔یہ کوئی معمولی ٹیسٹ نہیں ہے۔‘‘
بیٹی پھر بولی
’’ابا آپ چھ کتابوں کے مصنف ہیںآپ کے لئے ہر ٹیسٹ معمولی ہے۔‘‘
بچے فرش پر انگڑائیاں لیتے ہوئے ہنستے رہے جنید ؔ اٹھ کھڑا ہوا اور سب پر نظریں دوڑا تے ہوئے زورسے بولا
’’ یہ کوئی معمولی ٹیسٹ نہیں ہے اگر میں اس ٹیسٹ میں فیل ہوگیا تو مجھے نوکری سے برخواست کیا جائے گا۔‘‘
’’کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!۔‘‘
سب جیسے کھجور میں اٹک گئے۔
���
دلنہ بارہمولہ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005196878