Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

فرق افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: February 22, 2025 11:00 pm
Mir Ajaz
Share
6 Min Read
SHARE

فاضل شفیع بٹ

“کچھ دنوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ متواتر ڈاک خانے کے چکر لگا رہے ہیں۔ کیا کوئی نیا کاروبار شروع کیا ہے؟” پوسٹ ماسٹر مجھ سے مخاطب تھا۔
“نہیں صاحب۔۔۔ دراصل حال ہی میں میرا افسانوی مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔ اب اپنے دوستوں کو اپنی تخلیق بطور تحفہ ارسال کر رہا ہوں۔ اس لئے چند دنوں سے ادھر آنا جانا ہے۔۔۔” میں نے قدرے اطمینان کے ساتھ جواب دیا۔
” اُوہ۔۔۔۔۔ اچھا۔۔۔۔۔۔۔!! تو آپ ایک قلم کار ہیں۔ ویسے آج کل کتابیں پڑھتا ہی کون ہے۔ کتاب وہ ہے جو پڑھی جائے ورنہ ردّی کاغذ سمجھو۔۔۔ ”
پوسٹ ماسٹر مجھ سے طنزیہ لہجے میں مخاطب تھا ۔
میں نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکال کر پوسٹ ماسٹر کے ہاتھ میں تھما دی اور کہا۔۔۔
“جناب یہ آپ بطور تحفہ رکھ لیجئے۔ انشاءاللہ آپ کو کتاب پسند آئے گی”
پوسٹ ماسٹر تقریباً پچاس برس کا اچھے خدوخال کا آدمی تھا جس کے چہرے پر سفید لمبی داڑھی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ادب کا شیدائی ہوگا۔
پوسٹ ماسٹر نے کتاب کا سرسری جائزہ لیا۔کتاب کو باہر سے ہی دیکھنے کے بعد اس نے کتاب واپس لوٹا دی اور کہا:
” ارے یہ تو افسانوی مجموعہ ہے۔ آج کے دور میں اس کتاب کا مطالعہ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ میں بھی کسی زمانے میں شاعری اور افسانے لکھا کرتا تھا لیکن پھر میں نے اپنی ساری تخلیقات کو آگ کی نذر کر دیا۔ لیکن ہاں اگر آپ نے کوئی اسلامی کتاب لکھی ہوتی تو میں ضرور اس کا مطالعہ کرتا”
میں نے چپ چاپ کتاب کو واپس بیگ میں رکھ دیا۔ میرے دل کو کافی گراں گزرا۔ مجھے پوسٹ ماسٹر سے اس طرح کے برتاؤ کی قطعی کوئی اُمید نہ تھا۔ اس نے ایک طرح سے میری توہین کی لیکن میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھتے ہوئے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس سےاجازت طلب کی۔
کتاب واپس لوٹانے والی بات میرے ذہن میں کھٹک رہی تھی۔ میں ڈاک خانے سے سیدھا اپنے آفس کی طرف نکلا۔ راستے میں چند عورتوں نے مجھ سے لفٹ مانگی۔ چونکہ جس راستے سے میں آفس آتا جاتا ہوں اُس راستے پر گاڑیوں کی کم آمد ورفت کی وجہ سے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے میں نے اپنی گاڑی کو روکا اور وہ تینوں خواتین پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئیں۔ ایک عورت تقریباً ساٹھ کے قریب، دوسری پنتیس کے قریب اور تیسری تقریباً بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی۔ وہ گاڑی میں بیٹھ کر مجھے دعائیں دینے لگیں۔ ان کا تعلق گوجر طبقے سے تھا اور وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے ساتھ والے قصبے کی خانقاہ جا رہی تھیں۔
گاڑی میں ان کی نظر اچانک میری کتاب پر پڑی جو میں نے اگلی سیٹ پر رکھی ہوئی تھی۔پنتیس سالہ عورت نے مجھ سے مخاطب ہو کر کہا:
“بھیا۔۔۔ یہ کون سی کتاب ہے۔ کیا میں اسے دیکھ سکتی ہوں؟”
یہ میری ہی لکھی ہوئی کتاب ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ آپ شوق سے اسے دیکھ لیجئے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی کتاب اس عورت کے ہاتھ میں تھما دی۔
ماشاءاللہ بھیا۔ اس پر تو آپ کی تصویر بھی ہے۔ آپ ایک قلم کار ہیں۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی ہے حالانکہ میں زیادہ پڑھی لکھی تو نہیں ہوں لیکن پھر بھی مجھے کتابوں سے محبت ہے۔۔۔ کتاب کا جائزہ لیتے ہوئے اس نے وہ کتاب جواں سال لڑکی کے ہاتھ میں تھما دی۔
لڑکی کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اس نے کتاب کی ورق گردانی شروع کی اور کہا کہ اُسے افسانے پڑھنے کا بہت شوق ہے اس نے مزید کہا کہ اس کتاب کی کیا قیمت ہے؟
میں نے اس لڑکی کی دلچسپی کو محسوس کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کتاب کو رکھ لیجئے اور ویسے بھی میں نے پیسہ کمانے کے لیے یہ کتاب لکھی نہیں ہے۔ لیکن وہ اپنی ضد پر اڑی رہیں اور اس نے اپنے پرس سے تین سو روپے نکال کر میری اگلی سیٹ پر رکھ دیئے۔
میں نے آفس کے باہر اپنی گاڑی روک لی۔ وہ تینوں گاڑی سے اتر گئیں۔ میں نے تین سو روپے انہیں یہ کہہ کر واپس لوٹا دیے کہ میں اپنی تصنیف انہیں بطور تحفہ پیش کر رہا ہوں۔ وہ خوشی سے پھولے نہ سمائیں اور مجھے دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوئیں۔۔
میں پورے دن اپنے آفس میں اسی سوچ میں گم تھا کہ ایک پڑھے لکھے سرکاری ملازم ،جو ادب کا شیدائی لگ رہا تھا، اور ان گوجر طبقے سے تعلق رکھنے والی عورتوں کے درمیان آخر کس چیز کا فرق ہے ؟۔۔

���
اکنگام، انت ناگ،موبائل نمبر؛ 9971444589

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
بیلی چرانہ جموں میں عدم شناخت خاتون کی نعش برآمد
جموں
ایس پی او منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار، ممنوعہ مواد بر آمد
جموں
سلیکشن گریڈ کانسٹیبل 8000روپے رشوت لیتے ہوئے گرفتار
جموں
ریاسی میں سڑک حادثہ ،11افراد زخمی
جموں

Related

ادب نامافسانے

افسانچے

May 31, 2025
ادب نامافسانے

بے موسم محبت افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

قربانی افسانہ

May 31, 2025
ادب نامافسانے

آئینہ اور ہاشم افسانچہ

May 31, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?