جموں خطہ فرقہ وارانہ لحاظ سے ہمیشہ ہی حساس رہاہے اورخطہ میں فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات ماضی میں رونما ہوتے رہے ہیں ۔ایسے میں انتظامیہ کی معمولی سی کوتاہی بھی خطرناک نتائج کا باعث بن سکتی ہے ۔خاص طور پر جموں خاص میں حالات کو پرامن بنائے رکھنا انتظامیہ کیلئے ایک چیلنج بنارہتاہے ۔ماضی میں ایسے کئی واقعات رونماہوچکے ہیں جب انتظامیہ اور پولیس کی کوتاہی فرقہ وارانہ کشیدگی پر متنج ہوئی اور اکثریتی اور اقلیتی طبقوں میں زبردست کشیدگی دیکھی گئی ۔جموں جیسے علاقے میں انتظامیہ کی ہر وقت یہی کوشش رہنی چاہئے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا نہ ہونے پائے اور امن و قانون کی صورتحال برقرا ررہے تاہم ایسا ہو نہیں رہا ہے اورموجودہ دور حکومت میں شرپسند عناصر اپنی سرگرمیاں بلاخوف و خطر انجام دے رہے ہیں ۔ کبھی وہ مسلم اقلیت کو نشانہ بناتے ہیں ، کبھی گائے کے نام پر تشدد کیاجاتاہے اور کبھی وقف املاک پر قبضہ کیاجارہاہے ۔حال ہی میں ایسے ہی ایک واقعہ میں جموںکی تحصیل بھلوال کی پنچایت گورڈہ کے پڈ۔پڑیاڑی نامی گائوںمیں چند شرپسندعناصرکی طرف سے جبری طورپر قبرستان کے بیچوں بیچ سڑک نکالی گئی جس سے مسلم طبقہ میں زبردست غم و غصہ پایاجارہاہے اور ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ گورڈہ میںخسرہ نمبر 682 کے تحت 3 کنال 5مرلہ والا یہ رقبہ قبرستان کے طورپر محکمہ مال کے ریکارڈ میں باضابطہ درج ہے اوریہاں صدیوںسے اہل اسلام مردوں کو دفن کرتے چلے آرہے ہیںتاہم کچھ شرپسند عناصراس قبرستان کے بیچوں بیچ ٹریکٹر اوردیگرگاڑیاں چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے اس قبرستان میں کئی قبروں کو بھی نقصان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔اگرچہ مقامی لوگوں نے محکمہ مال کے حکام سے رجوع بھی کیا اورشرپسندوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیالیکن اس پر کوئی اقدام نہیں کیاگیا جس سے قبرستان کی حرمت پامال کرنے والوں کے حوصلے مزید بلند ہوئے ہیں اور ا ب تو کھلم کھلا قبرستان کے بیچوں بیچ سے گاڑیوں کا چلنا معمول بن چکا ہے۔جموں میں اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران ایسے کئی واقعات دہرائے جاچکے ہیں اور شرپسندعناصر مسلم طبقہ کے جذبات مجروح کرکے حالات خراب کرنے کی کوئی بھی کوشش ہاتھ سے نہیں جانے دے رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جموں کی مسلم اقلیت خود کو غیر محفوظ سمجھ رہی ہے کیونکہ ایک طرف اکثریتی طبقہ کی جانب سے ان کی ہراسانی کا عمل مسلسل جاری ہے اور دوسری جانب انتظامیہ خاموش تماشائی بن کرجہاں شر پسندوں کی غیر اعلانیہ پشت پناہی کررہی ہے وہیں اقلیتی طبقہ میں یہ احساس اجاگر کیاجارہا ہے کہ ان کا اس شہر میں اب کوئی پرسان حال بھی نہیں رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جموں اور اس کے مضافات میں جاری اس طرح کی کارروائیوں کی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ امن ا ور بھائی چارہ بنارہے ۔ورنہ معمولی سی کوتاہی سے بھی نہ صرف جموں بلکہ پوری ریاست کے حالات پر اثرانداز ہوسکتی ہے ۔چاہے قبرستان ہو ، شمشان گھاٹ ہو یاپھر کوئی دوسرا مذہبی مقام ،ہر ایک کا تحفظ کرنا سبھی کی ذمہ داری ہونی چاہئے اور ہمیں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کی قدر کرنی چاہئے کیونکہ اسی صورت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے جو امن و امان کی بحالی پر منتج ہوگی۔اس ضمن میں حکومت کیلئے ناگزیر بن چکا ہے کہ وہ گورڈہ کے پڈ۔پڑیاڑی نامی گائوںمیں قبرستان پر جبری قبضہ اور اس کے بیچ سے سڑک بنانے کے اس واقعہ کا سنجیدہ نوٹس لے اوربروقت کارروائی کرکے اس اشتعال انگیز حرکت میں ملوث شر پسندعناصر کو ان کے انجام تک پہنچائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات دہرانے کی کوئی ہمت نہ کر ے جس سے نہ صرف فرقہ وارانہ کشیدگی ختم ہوگی بلکہ اقلیتی طبقہ بھی عدم تحفظ کے احساس سے آزاد ہوگا ۔ورنہ اگر حسب روایت اس واقعہ پر بھی خاموشی اختیار کرکے اقلیتی طبقہ کو شرپسندوں کے ہاتھوں زچ کرنے کی پالیسی جاری رہی تو صورتحال کوئی خطرناک کروٹ لے سکتی ہے جو کسی بھی طور ریاست کے مفاد میں نہیںہے ۔اس لئے امید کی جانی چاہئے کہ حکومت نہ صرف زیر بحث واقعہ ،بلکہ ہر ایک واردات پر فوری کارروائی کرے جس کا مقصد فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو زک پہنچانا ہو تاکہ ریاست کے سبھی لوگ بلا لحاظ مذہب و ملت امن و سکون کے ساتھ رہ کر ترقی و خوشحالی کے سفر میں شامل ہوسکیں ۔