رسانہ عصمت ریزی و قتل کیس اور اس پر سی بی آئی سے تحقیقات کرانے کے مطالبے کے تناظر میں جموں کے وجے پور علاقے میں گزشتہ روز رنما ہوئے واقعہ سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ امن و بھائی چارے کو نقصان پہنچاکر فرقہ وارانہ بنیادوںپر کشیدگی پید ا کرنے کے متمنی عناصر برابر اس تاک میں ہیں کہ کس طر ح سے موقعہ کاغلط فائدہ اٹھایاجاسکے ۔یہ کشیدگی ایسے موقعہ پر پید اکرنے کی کوششیںہورہی ہے جب پہلے سے ہی رسانہ قتل کیس پرغیر منطقی اور بلا جواز مطالبات پر جموںمیں تقسیم پائی جارہی ہے اور سپریم کورٹ کی طرف سے مطالبہ مسترد کئے جانے کے باوجود کچھ لوگ اس کیس کو سی آئی بی کو سونپنے کیلئے مہم چلارہے ہیں اور ریلیاں نکال رہے ہیں۔واضح رہے کہ بی جے پی کے مستعفی شدہ وزیر اور ممبر اسمبلی وجے پور کے آبائی گائو ںسرور میں سر کٹے دو بچھڑے ملنے کے بعدگزشتہ روز علاقہ میںحالات کشیدہ ہوگئے اور بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوئئے جنہوںنے احتجاج شروع کردیا۔ بعد میں لوگوں نے مردہ بچھرے سابق وزیر کے گھر کے باہر رکھ کر جموں پٹھانکوٹ شاہراہ پر دھرنا دیاجس دوران پولیس کے ساتھ ان کی جھڑپیں بھی ہوئیں اور پولیس پر سنگ بازی کی گئی اور ایک گاڑی نذر آتش کردی گئی ۔اگرچہ پولیس نے تشدد بھڑکانے کے الزام میں 5افراد کو گرفتار کیاتاہم بعد میں انہیں رہا بھی کردیاگیا اور ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکاکہ کشیدگی کو ہوادینے کےلئے ایسے اقدامات کرگزرنے والے عناصرکون ہیں اور انہوںنے ایسا کس نیت سے کیا؟یہ بات قابل ذکر ہے کہ ماضی میں بھی اس طرح کے واقعات ریاست کے مختلف اضلاع میں رونماہوتے رہے ہیں لیکن آج تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ایسے واقعات کے پیچھےکون عناصر ہیں اور انکے عزائم کیا ہیں۔پولیس پیچیدہ اور بڑے بڑے مسائل حل کرنے کے دعوے تو کرتی ہے لیکن مبینہ گائو کشی کے کسی ایک بھی معاملے کی سچائی ابھی تک لوگوںکے سامنے نہیں آسکی ہے ۔پولیس کی طرف سے کارروائی نہ کئے جانے کا نتیجہ ہے کہ گائو رکھشا کے نام پر ملک بھر کی طرح ریاست میں بھی لاقانونیت کامظاہرہ کرتے ہوئے کئی افراد کی پٹائی کی گئی اور کبھی گائے یا بچھڑے کا سر کاٹنے کا الزام عائد کیاگیاتو کبھی مویشیوں کی سمگلنگ کا الزام لگا ۔ اگر پولیس نے ایک بھی واقعہ کی تہہ تک جاکرتحقیقات کرنے میں کامیابی حاصل کی ہوتی اور سچائی لوگوںکے سامنے لاکرپس پردہ عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہوتا تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے واقعات دہرا کر فرقہ وارانہ کشیدگی پید اکرنے کےجتنبار بار نہیں ہوتے اور نہ ہی مذہب کی آڑ میں قانون کو اپنے اختیارمیںلینےکی کوششیں ہوتیں ۔ایسے واقعات کارونما ہونا ریاست کے امن اور فرقہ وارانہ بھائی چارے کیلئے خطرناک ہے اور جہاں ان کو انجام دے کر مذہبی طور پر جذبات کو ٹھیس پہنچانے والوں کی مذمت ہونی چاہئے وہیں یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہر کچھ عرصہ بعد ایک نیا واقعہ سرانجام دے کر فرقہ وارانہ طور پر کشیدگی کا ماحول پید اکرناچاہتے ہیں ۔کہیں ایسا تو نہیںکہ ایسے واقعات دیگر اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے انجام دیئے جارہے ہیں ۔کٹھوعہ آبروریزی و قتل کے معاملے میں ریاستی پولیس نے فرقہ پرست عناصر کو بے نقاب کرنے میں جو مثالی کردار ادا کیا ہے،وہ قابل سراہنا ہےاور اُسکا تقاضا ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش کرنے والے عناصر کوننگا کرنے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لیا جائے گا۔ ریاست کے ہر ذی شعور شہری کی یہی تمنا ہے کہ مذہب کے نام پر صورتحال بگاڑنے والوں کو ریاست کے اندر موجود فرقہ وارانہ ہم آہنگی درہم برہم کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔