آج چونکہ یونیورسٹی میں چھٹی تھی تو تھوڑا گھومنے نکلا تھا۔ بہت دن ہوئے تھے تعلیمی مصروفیات سے میں بازار کی طرف نہ آسکا تھا ۔ آج موڑ بھی کچھ ٹھیک ہی تھا۔ وقت جب کٹے بھی نہیں کٹ رہا تھا تو سوچا کہ تھوڑا پارک میں ہی آرام کروں ۔اس نیت سے پارک میں گیا اور وہاں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا اور اس کی ماں، جو میری طرف ہی آرہے تھے جیسے ہی میرے قریب سے گزرے تو ماں کی کچھ باتیں مجھے سنائی دیں جو اپنے بیٹے کو نصیحت کر رہی تھی کہ دیکھ بیٹا روز روز اسکول آکر ہم تھک گئے ہیں۔ تیرے باپ کو اسی وجہ سے آفس پہنچنے میں دیر ہوتی ہے اور ان کا باس انہیں ڈانٹتا ہے کہ وہ روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر ڈیوٹی پر آنے میں دیر کرتا ہے۔ مجھے اس کی باتیں بہت پیاری لگیں تو میں بھی ٹہلنے کے بہانے میں ان کے پیچھے پیچھے چل دیا تاکہ ان کی گفتگو سن سکوں ، ماں کہتی رہی۔ دیکھ میرے لال تجھے ہم ہر وہ چیز مہیا کراتے ہیں جو تو کہتا ہے، پھر تو پڑھتا کیوں نہیں ہے ۔ اس طرح کام کب تک چلے گا ۔ اب ہم تنگ آگئے ہیں۔ اگر اسکول نہیں جائو گے تو تیرے مستقبل کاکیا ہوگا؟ ہماری پریشانیوں کا خیال کر،ہمیں اور بھی کو کام ہیں۔تیرے باپ کو نوکری سے نکالیں گے تو ہم کیاکھائیں گے؟ مجھے بھی تو گھر میں بہت سے کام ہوتے ہیں۔ تیرا خیال رکھنا ،کھانا بنانا ،کپڑے دھونا،اور گھر کی صفائی دغیرہ۔ دیکھ اب تو بڑا ہوگیا ،سمجھ دار ہے ،سدھر جا۔ اسی اثناء پارک کا مین گیٹ آگیا اور وہ وہیں سے ایک بس میں سوار ہوکر چلے گئے۔بس کسی اور روٹ کی تھی اور میرے پاس اب ان کا پیچھا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اس لئے پھر سے ایک بار آکر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ یکا یک میرے ذہن میں آیا کہ اپنے یہاں بھی تو مائیں ہیں اور اپنے علاقے میں بھی تو بچوں کے باپ ہی ہوتے تو ان کو کیا اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر نہیں ہوتی ہے ،وہاں بھی تو ٹیچر اسکولوں میں بچوں کے بارے میں گفتگو کیلئے والدین کو بلاتے ہیں مگر وہاں تو کوئی ایسا نہیں کرتا لاکھ بلانے پر بھی کوئی ماں یا باپ اسکول میں حاضر ہونے کی زحمت گوارہ نہیں کرتا۔ پھر مجھے وہ دن یاد آگیا کہ میں بھی اسکول سے تین سے چار مرتبہ بھاگا تھا، پھر میرے والدین کو بھی اسکول طلب کیا گیا تھا لیکن کوئی نہیں گیا ،حالانکہ میرے والد کو تو کسی باس کا ڈر بھی نہیں تھا وہ تو ہفتے میں ایک بار ڈیوٹی جاتے کیوں کہ ان کی ڈیوٹی صرف گائوں میں تھی،میری ماں تو وہیں دن بھر گائوں میں عورتوں کے ساتھ گپ شپ میں مصروف تھی۔ وہ بھی تو نہیں گئی۔ دو دن مسلسل شکایت گھر آگئی تو ماں نے میرے باپ سے کہا بھی تھا کہ اسکول جا کر دیکھ لیں ،تو باپ نے اُلٹا انہیں ہی ڈانٹ دیا تھا کہ تو خود کون سی نوکری میں جاتی ہو دن بھر پڑوسن کے ساتھ کون سا قانون بنا رہی ہوتی ہو؟دیکھ کیوں نہیں لیتی تیرا لاڈلا کیا گل کھلا رہا ہے۔ پھر مجھے بھی دو چار تھپڑ مار قصہ ختم ہوا تھا۔ اسی درمیان مجھے میرے دوست شاہ نور اور عمران یاد آئے وہ بھی تو سکول روز بھاگتے تھے ان کے والدین بھی تو اسکول کبھی حاضر نہیں ہوئے۔مجھے اپنے گائوںکے عزیز ٹیچر نسیم سر کی شکل یاد آئی کہ ہمارے والدین کی بے رخی سے تنگ آکر کیسے وہ ہمیں سمجھاتے تھے کہ بیٹا کل اسکول آجانا، میں ہیڈ ماسٹر صاحب کو سمجھا دوں گا ۔ مجھے پھراُس آنٹی کی صورت یاد آئی جو ابھی ابھی اپنے بچے کو پیار سے اس کی کو تاہیوں کے بارے میں سمجھا رہی تھی۔اچانک میرے دل کو ایک دھچکہ سا لگا کہ کتنا فرق ہے ہمارے اور یہاں کے والدین میں پھر یہ خام خیال میرے دل میں آیا کہ کہیں ہمارے ماں باپ ہماری تعلیم کو لے کر غیر سنجیدہ تو نہیں ہیں اگر ایسا ہے تو پھر کیا ہوگا۔ ہمارے مستقبل کا ؟؟
رابطہ؛دراس کارگل ، جموں وکشمیر،9469734681