شبیر احمد مصباحی
یہ ہمارے علاقے کی ایک سرکاری لائبریری تھی، مگر حقیقت میں اسے “فرعون کی لائبریری” کہا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا کیوں کہ اس کے بے تاج بادشاہ، فخر نظامی صاحب، خود کو کسی فرماں روا سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ ویسے بھی، یہ ان دنوں کی بات ہے جب سرکاری ملازمت کو اختیار کرنا اپنی عزتِ نفس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ دوسری طرف، سرکاری دفاتر بھی ایسے ایماندار ملازمین کی تلاش میں سرگرداں رہتے جو کم تنخواہ میں زیادہ خدمات انجام دینے کو تیار ہوں۔ مگر ایسے دیوانے کہاں ملتے! نتیجتاً، نظامی صاحب جیسے باصلاحیت لوگ، جو نہ صرف ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے بلکہ دفتر کو اپنی ذاتی جاگیر بھی بنا لیتے، ہر جگہ چھائے رہتے۔
یہ لائبریری بنیادی طور پر علاقے کے علمی پیاسوں کے لئے بنائی گئی تھی، لیکن حالات کچھ ایسے تھے کہ یہاں علمی پیاس بجھانے والا کوئی تھا ہی نہیں۔ لوگ اسے تحصیل دفتر کا کوئی خفیہ اور غیر ضروری شعبہ سمجھتے تھے، جہاں جانے سے بہتر تھا کہ وہ کسی پٹواری کے ہتھے چڑھ جائیں۔ مگر نظامی صاحب اسے بلاک کی سب سے اہم جگہ اور خود کو اس کا سب سے ضروری فرد سمجھتے تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس علاقے کا اصل علمی خزانہ کتابوں میں نہیں بلکہ ان کی اپنی ذات میں پوشیدہ ہے۔ وہ اکثر افسوس کرتے تھے کہ لوگ لائبریری کی قدر نہیں کرتے، مگر درحقیقت ان کا یہ افسوس زیادہ تر اس بات پرتھا کہ کوئی ان کے علمی جاہ و جلال کو سلام پیش کرنے نہیں آتا۔ایک دن نظامی صاحب نے بڑے جوش و خروش سے ہمیں دعوت دی، “حضرت کبھی لائبریری کا چکر لگائیں، یہ ایک خزانہ ہے، بس لوگ بے قدری کرتے ہیں”
ہم نے ان کی بات پر ایمان لاتے ہوئے فیصلہ کیا کہ اگلے دن ضرور اس نادر علمی خزانے کے دیدار کے لئے جائیں گے۔ چنانچہ، مقررہ دن، گیارہ بجے ہم لائبریری پہنچے، مگر وہاں پہنچ کر جو نظارہ دیکھا، وہ ہماری توقعات سے کچھ زیادہ ہی مختلف نکلا۔
نظامی صاحب تو ابھی تشریف نہیں لائے تھے، مگر لائبریری کے اکلوتے دربان اور خادمِ خاص، مکرم صاحب، دروازے پر موجود تھے۔ وہ ہمیں ایسے گھور رہے تھے جیسے ہم کوئی خزانہ لوٹنے آئے ہوں۔ ہم نے ادب سے کہا، “ہم ذرا کتابیں دیکھنا چاہتے ہیں۔”
انہوں نے تیوری چڑھاتے ہوئے کہا، “نظامی صاحب کے بغیر؟ یہ ممکن نہیں”ہم نے چونک کر پوچھا، “کیوں؟ کیا کتابوں پر بھی پہرہ ہے؟””جناب، لائبریری کے اصول ہیں۔ نظامی صاحب کی موجودگی میں ہی کوئی کتاب دیکھی جا سکتی ہے۔”یہ سن کر ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ واقعی یہ کوئی عام لائبریری نہیں بلکہ کسی بادشاہ کا دربار ہے، جہاں عام آدمی کو بنا اجازت داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ لیکن ہم بھی ضد کے پکے تھے، چنانچہ ہم نے مکرم صاحب کے سخت گیر اصولوں کا حل یہ نکالا کہ کسی کتاب کو ہاتھ لگانے کے بجائے صرف الماریوں کے اندر جھانک کر اندازہ لگایا جائے کہ یہ “خزانہ” آخر ہے کس چیز کا۔ہم نے جیسے ہی مختلف الماریوں پر نظر دوڑائی، تو اندازہ ہوا کہ یہاں کتابوں کی کوئی منطقی ترتیب نہیں تھی۔ تاریخ کی کتابیں تاریخی ناولوں کے ساتھ رکھی ہوئی تھیں، اسلامیات کی چند کتابیں انگریزی ادب کے شاہکاروں کے پہلو میں دبی بیٹھی تھیں اور فزکس کی انگریزی کتابوں کے سامنے تاریخِ ہند کی دو تین کتابیں ایسے رکھی تھیں جیسے کوئی بزرگ چھوٹے بچوں پر نظر رکھے بیٹھے ہوں۔
ہمیں نظامی صاحب کے اس علمی ذوق پر حیرانی ہوئی۔ ہم نے سوچا، “یہ کس قسم کی ترتیب ہے؟” لیکن پھر ہمیں یاد آیا کہ انہوں نے خود ہی دعویٰ کیا تھا کہ کتابوں کو نہایت سلیقے سے ان کی موضوعاتی نوعیت کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔یہی نہیں، الماریوں میں دھول کی اتنی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی کہ اگر کسی نے اس پر انگلی پھیری ہوتی تو یقیناً ایک تاریخی طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔ کرسیاں بے بسی کے عالم میں کھڑی تھیں، جیسے صدیوں سے کسی کے بیٹھنے کا انتظار کر رہی ہوں اور ایک جسیم القد ٹیبل تھا جس پر دھول کی پرتیں ایسی جمی تھیں جیسے یہ آثارِ قدیمہ میں شمار ہونے والی کوئی نایاب چیز ہو۔
خدا خدا کرکے نظامی صاحب نے قدم رنجہ فرمایا اور جیسے ہی وہ داخل ہوئے، مکرم صاحب نے نہایت عاجزی سے ان کی تعظیم میں جھک کر سلام کیا، جیسے وقت کے ڈی سی صاحب کا معائنہ چل رہا ہو۔ ہم نے بھی بے دلی سے رسمی علیک سلیک کی۔ ہمیں امید تھی کہ وہ ہمیں خوش آمدید کہیں گے، ہماری حوصلہ افزائی کریں گے کہ ہم لائبریری میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن ہوا اس کے برعکس، نظامی صاحب نے ماتھے پر بل ڈال کر فرمایا، “ارے بھائی! آپ اتنے سویرے کیوں آ گئے؟”
یہ سن کر ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ علم سے زیادہ یہاں “حاضری کے اوقات” اہم ہیں۔ ہم نے دل میں سوچا، “چلو اچھا ہوا، اگر اور زیادہ سویرے آ جاتے تو شاید دروازے پر ہی روک دیا جاتا۔”
ہم نے نرمی سے کہا، “بس، سوچا کہ کتابیں دیکھ لیں، شاید کوئی اچھی کتاب مل جائے۔”
یہ سن کر نظامی صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی، جیسے وہ پہلے سے ہی جانتے ہوں کہ ہم کسی راہِ راست پر نہیں ہیں۔ انہوں نے اپنی عینک درست کی اور بولے، “دیکھیں، کتاب دیکھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مطالعہ کا صحیح طریقہ کیا ہوتا ہے۔”
ہم نے نظریں جھکا لیں، کیونکہ اب ہمیں یقین ہو چکا تھا کہ آج ہم کتابوں سے زیادہ ان کی “تقریر” کا مطالعہ کرنے والے ہیں۔نظامی صاحب نے ایک گھنٹے تک ہمیں بتایا کہ علم کیسے حاصل کیا جاتا ہے، لائبریری آنے کا سلیقہ کیا ہونا چاہیے اور سب سے بڑھ کر، ان کے مطابق اس لائبریری کو چلانے کے لیے “کتنی محنت” درکار ہوتی ہے۔ ہمیں ان کی باتوں میں دلچسپی کم اور ہمدردی زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔
جب ان کی تقریر ختم ہوئی، تو ہم نے موقع دیکھ کر پوچھا، “سر، ہم کوئی کتاب لے جا سکتے ہیں؟”
یہ سن کر وہ ٹھٹک گئے، جیسے ہم نے کوئی ناقابلِ معافی سوال پوچھ لیا ہو۔ پھر سنبھل کر بولے، “دیکھیں، کتاب لینا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ پہلے ایک درخواست جمع کروائیں، اس پر غور ہوگا اور اگر مناسب سمجھا گیا تو آپ کو کتاب دے دی جائے گی۔”
یہ سن کر ہمیں مکمل یقین ہو گیا کہ اس لائبریری کا اصل مقصد علم کی ترویج نہیں بلکہ “شخصیت پرستی” تھا۔ چنانچہ، ہم نے فوری طور پر وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت جانی اور دل میں سوچا کہ اگر واقعی کسی خزانے کی تلاش کرنی ہو تو کسی آثارِ قدیمہ کے دفتر چلے جائیں کیونکہ یہاں تو فرعونِ وقت کا راج ہے اور کتابیں شاید صرف “نمود و نمائش” کے لئے رکھی گئی ہیں۔
دراس کرگل لداخ
8082713692