سید مصطفیٰ احمد
میں کیا لکھوں اور کیا نہیں، سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ میں کس سے شکایت کروں اور کیسے کروں۔ میں جگر کو پیٹوں یا پھر اپنے کپڑے سر بازار تار تار کرکے اپنی بےبسی پر نوحہ خواں ہوجاؤں اور راکھ پورے بدن پر مل کر تڑپ تڑپ کر ہمیشہ کے لیے موت کے منہ میں چلا جاؤں۔ میں کس سے کہوں میرے چمن میں اتنے بوم ہیں کہ ہر طرف موت کا سماں ہے۔ اب یہاں پیار کا سماں نہیں رہا۔ یہ سماں اب فرضی اساتذہ کا سماں ہیں ۔ مجھ میں لکھنے کی سکت نہیں ہے۔ میں کیسے ان فرضی رہبروں سے سے گلا کروں۔ کسی شاعر نے کیا خوب لکھا ہے کہ میں لوگوں سے تیری شکایت کروں تو یہ میری شکایت کی توہین ہوگی۔ میرے لکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ لوگ پڑھ کر باتوں کو بھول جائیں گے۔ سارے قاری اپنی دنیا میں مست ہوجائیں گے لیکن جس کو تیر لگتا ہے درد کی شدت وہی جانتا ہے۔ مجھے ہر روز باپ کے سامنے اس بات کا سوال کا جواب دینا پڑتا ہے کہ میں سرکاری ملازم کیوں نہیں بن پاتا ہوں۔ ہر روز گھر میں لڑائی کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔ گھر کے دوسرے افراد بھی اس لڑائی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گھر کے معمر افراد شور سے گھبراتے ہیں۔ گھر میں پکا ہوا کھانا ردی کی ٹوکری میں چلا جاتا ہے۔ کل ایک دوست فون پر کہہ رہا تھا کہ اپنا قیمتی وقت لکھنے میں ضائع نہ کروں۔ بہتر ہے کہ تم کوئی سرکاری نوکری حاصل کرنے کے بعد لکھنا شروع کردوں تاکہ تمہاری باتوں کو لوگ غور سے سنیں اور پڑھیں۔ کچھ وقت کے لئے میں اس کی باتوں میں آگیا تھا لیکن پھر دوپہر میں ایک خبر گونجی کہ کشمیر کے کسی علاقے سے دو فرضی اساتذہ کو معطل کیا گیا ہے۔ وہ ضروری دستاویزات پیش کرنے سے قاصر تھے، جس کے جرم میں ان کو نوکریوں سے برطرف کیا گیا۔ اب میں سوچنے پر مجبور ہوں کہ اگر ایسے اساتذہ بنا ضروری دستاویزات کے قوم کی رہبری کرسکتے ہیں تو ہم سب کو کس پاگل کتے نے کاٹا ہے کہ ہم دن رات محنت کرکے خود کے لئے اور اپنے گھر والوں کے لیے بھی ایک نہ اٹھنے والی بوجھ کی مانند لٹکتے رہیں۔ جن اساتذہ کو برطرف کیا گیا، ان کے دستاویزات کی جانچ پہچان کرنے والے کون تھے۔ وہ کون لوگ تھے جن کی ناک کے نیچے ایسے چور سرکاری سیٹوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کا ضمیر ان کو ملامت کیوں نہیں کرتا ہے کہ فرضی اسناد سے حاصل کی گئی نوکریاں قوم کو ڈوبانے کے مترادف ہیں لیکن جب زندگی مادیت اور دکھاوے تک محدود ہوجاتی ہے تب پھر سارے سماج کا فرضی ہوجانا حتمی بات ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے، ایسے کونسے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایسے لٹیرے سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں اور قابل، لائق اور مستحق امیدواروں کی اُمیدوں کا گلا کاٹتے ہیں۔ کچھ کا ذکر آنے والی سطروں میں کیا جارہا ہے۔
پہلی وجہ ہے سیاسی اپروچ۔ سیاسی اپروچ نے کشمیر کا ہی بیڑا غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے ووٹوں کے خاطر جائز اور ناجائز دونوں طریقوں سے قابل امیدواروں کی جگہ نقلی امیدواروں کو سرکاری کرسیوں پر براجمان کیا۔ سیاسی نشے میں چور اُن درندوں نے آناً فاناً ایسے نااہلوں کو سرکاری دفاتر کی کنجیاں تھمائی کہ اصلی امیدواروں کی زندگیوں میں دن دہاڑے کالی گھٹا چھا گئی اور غموں کے بادل ہٹنے کا نام بھی نہیں لیتے ہیں۔ دوسری وجہ ہے رشوت خوری۔ یہاں رشوت خوری کے حمام میں لگ بھگ سارے ننگے ہیں۔ کوئی بھی شخص رشوت کی لعنت سے پاک نہیں ہے۔ یہاں ہر کوئی کام رشوت دے کر کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹروں کی سیٹیں خریدنے سے لے کر پرچوں کے لیک ہونے تک یہاں پیسوں کے بل پر کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بتیس لاکھ روپے میں NEET کا پرچہ نیلام ہوا۔ NET امتحان کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا۔ کچھ مہینے پہلے سرکاری ذرائع سے خبر موصول ہوئی تھی کہ کشمیر میں 1990 سے لے کر آج تک لگ بھگ ڈھائی لاکھ سے زیادہ نوکریاں چور دروازوں سے ہی بھر دی گئی ہیں۔ پیسوں کی لالچ میں یہاں ہر دستاویز میں تحریف کی جاتی ہے۔ سن پیدائش سے لے کر کوالیفیکیشن کے دستاویزات میں تحریف کرنا یہاں لوگوں کی دوسری عادت ہے۔ تیسری وجہ ہے سرکاری نااہلی۔ سرکار کی آنکھوں کے سامنے چوریاں اور دھاندلیاں ہوتی ہیں لیکن کسی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا ہے۔ میں نے لیفٹیننٹ گورنر محترم منوج سنہا کو ایک کھلے خط کے ذریعے اس بات کی طرف دھیان مرکوز کروایا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ اپنی پالیسیوں میں خاطرخواہ تبدیلیاں لائیں تاکہ نوجوانوں کا مستقبل برباد نہ ہو۔ اگر حکومت کی پالیسیوں میں جان ہوتی، تو فرضی اساتذہ سے لے کے فرضی ڈاکٹروں کا بھی سسٹم میں آنا محال تھا۔ چوتھی اور آخری وجہ ہے ہماری نااہلی۔ مادیت کا چشمہ ہر آنکھ پر ایسا چڑھ گیا ہے کہ اب پیسوں کے علاوہ ہمیں اور کوئی چیز دِکھتی ہے نہ سوجھتی ہے۔ ہمیں صرف مادیت کے ڈھیر لگنے چاہیے اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانا ہمارے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
اس کے اثرات نمایاں ہیں۔ مستحق امیدوار اب در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ سماجی برائیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ شادیوں میں تاخیر ہونا اب عام سی بات ہے۔ گھروں کے گھر تباہ و برباد ہورہے ہیں۔ نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں آئے دن اضافہ ہورہا ہے۔ احساس کمتری کے کیڑوں نے چہارسو اپنا جال بچھائے رکھا ہے۔ مستقبل کی کالی وادیاں آنکھوں کے سامنے رقص کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ ماں باپ کی بےبسی کے سامنے مستحق امیدوار جیتے جی مررہے ہیں۔ ماں باپ کے سپنوں پر نہ کھرا اُترنے کے درد نے ایسا زخم جسم کے اندر پیدا کیا ہے کہ ہر آن اس سے خون رستہ رہتا ہے اور کوئی بھی مرہم کارآمد ثابت نہیں ہوتا ہے۔ لائق اور مستحق امیدوار اب مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ پیٹ کی آگ اور گھر کی ذمہ داریوں نے بہتوں کو مزدور بننے پر مجبور کر دیا ہے اور باقی بچے ہوئے امیدواروں کی حالت دگرگوں ہے۔ وہ اپنے آپ سے ہی نفرت کرنے لگے ہیں۔
قوم کی ناؤ بھنور میں پھنستی جارہی ہے۔ اس کو صحیح سلامت کنارے تک لانے میں سرکار سے لے سماج کے ذی حس شخصیات کو اپنا نمایاں رول ادا کرنا ہوگا۔ رشوت پر قدغن لگنی چاہیے۔ فرضی اساتذہ کو سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینا چاہیے۔ اطمینان والی زندگی کی طرف دوڑنا ہم سب کی بنیادی فکر ہونی چاہیے۔ زیادہ کی آس میں ہم مستحق امیدواروں کے گھروں پر بجلیاں نہ گرادے۔ اس ضمن میں شروعات اپنے آپ سے کرنی ہوگی۔ حلال طریقوں سے کمانے کی فکر میں ہم سب کو لگنا چاہیے۔ بےجا رسومات سے پرہیز کرکے ہم قناعت پسندی کو گلے لگانے کی حالت میں بھی ہوسکتے ہیں جس کا نتیجہ اس شکل میں نکل کر آے گا کہ ہم غیرقانونی کاموں سے پرہیز کریں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ فرضی اساتذہ کو سبق سکھایا جائے۔جو خود فرضی دستاویزات پیش کرکے استاد بنا ہو، وہ طلباء کو سچائی کی راہ پر کیسے چلا سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ سرکار بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے فرضی لوگوں کو سرکاری کرسیوں پر براجمان ہونے سے پہلے لات مار کر باہر کردیگی اور یہی وقت کی ضرورت ہے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]