Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

فرانس کے صدارتی انتخابات

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: March 30, 2017 2:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
19 Min Read
SHARE
فرانس میںانقلاب آرہا ہے یا صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں ؟یہ سوال آج پوری دنیا کے سامنے ہے ۔اٹھارہویں صدی کے آخر میں فرانس میں آنے والے انقلاب نے پوری دنیا میں انقلابات کی روایت ڈال دی اور اس انقلاب فرانس کے اثرات سیاست،معاشرت اور معیشت سمیت تمام شعبوں پر مرتب ہوئے ۔23؍اپریل 2017ء کو فرانس میں صدارتی انتخابات ہونے جارہے ہیں ،جنہیں حالیہ انتخابی تاریخ کی سب سے زیادہ سنسنی خیز معرکہ آرائی قرار دیا جارہا ہے ۔سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں کئی مضبوط روایات ٹوٹ سکتی ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ فرانس کی مرکزی جماعتوں کے امیدوار منزل کے قریب بھی نہ پہنچ سکیں اور اسی کے ساتھ ہی روایتی طرز ِحکمرانی بھی اختتام کو پہنچ جائے ۔یوں تو اس وقت انتخابی اکھاڑے میں دائیں اور بائیں بازو کی سوشلست اور ری پبلیکن پارٹیوں کے ،جو 1958ء سے برسراقتدار آتی رہی ہیں ،امیدوار موجود ہیںلیکن پرائمریز کے نتائج سے ایسا لگتا ہے کہ یہ پہلے ہی راونڈ میں باہر ہو سکتے ہیں ۔ان صدارتی انتخابات میں دو غیر رویتی اور ــ’’باغیـ‘‘امیدوار فرانسیسی ووٹرز کی امیدوں کا مرکز ہوں گے ۔سحر انگیز شخصیت کی حامل ،میرین لی پین جو نیشنل فرنٹ کی سربراہ ہیں اور پبرل پارٹی ،این مارچ کے ایمانویل میکرون جو ایک لااُبالی سیاست دان مانے جاتے ہیں۔فرانس میں قوم پرستی کی ایسی لہر چلی ہے کہ قد ااور لیڈر ز صدارتی الیکشن سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں ،جب کہ نوجوان قیادت طاقت کے ایوانوں کے ٹیک اوور کے لئے تیار ہے اور اسے عوام کی آشیرواد بھی حاصل ہے ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ فرانس کے صدارتی انتخابات یورپ کی تقدیر بدلنے کے لئے بھی اہم ہوں گے اور عالمی سیاست کا رُخ متعین کرنے میں بھی ۔
ہم گزشتہ سال کے آغاز ہی سے مغربی دنیا میں آنے والی قوم اور تبدیلی کی روایت شکن لہر کا ذکر کررہے ہیں جو آج ایک طوفان میں بدل چکی ہے ،یعنی پہلے بریگزٹ،پھر امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت اور اب فرانس میں صدارتی انتخابات کے اولین نتائج کا انجام کسی زلزلے سے کم نہیں ۔مزید تفصیل میں جانے سے پہلے فرانس میں جاری صدارتی انتخابات کی مہم کا ایک جائزہ لیتے ہیں ۔ فرانسیسی باشندے اپنے حکمران طبقے سے نہ صرف سخت نالاں ہیں بلکہ شدید غصے میں بھی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ مسلسل برسر اقتدار رہنے والی سوشلسٹ اور ری پبلیکن پارٹیز غرق آب ہونے کے قریب ہیں ۔موجودہ صدر فرانسواں اولاندے ،جن کا تعلق سوشلسٹ جماعت سے ہے عوام میں اس قدر غیر مقبول ہوچکے ہیں کہ انتخابات لڑنے کی ہمت ہی نہیں رکھتے ،جب کہ حزب اختلاف ری پبلیکن پارٹی کے لیڈر فرانسوں فلون نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان پر اپنی اہلیہ اور بیٹے کو جعلی ملازمتوں کے لئے دس لاکھ ڈالرز دینے کا الزام ہے اور اس اعتراف کے بعد ان کے انتخابات میں حصہ لینے کے امکانات تقریباً ختم ہوگئے ہیں ۔فرانسیسی ووٹرز کی مرکزی جماعتوں سے ناراضی کی وجہ بھی کم و بیش وہی ہے جو دوسرے مغربی ممالک کے عوام کی ہے ۔اس وقت فرانس کی معیشت اور معاشرہ مکمل طور پر جمود کا شکار ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کسی زبردست جھتکے کے بغیر یہ جمود سے نہیں نکل سکتا ۔خیال رہے کہ ماضی قریب میں کسی بھی فرانسیسی حکومت نے اصلاحات لانے کے لئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں اور اسی لئے وہ عوام کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہوسکیں ،یہی وجہ ہے کہ شان دار ترقی کے بعد اب فرانس کو بدترین معاشی تنزلی کا سامنا ہے ۔آج فرانس کا پبلک سیکٹر قرضے کا مرہون منت ہے ،جو جی ڈی پی سے بڑھ چکا ہے ۔1974ء کے بعد کسی بھی حکومت نے ملکی بجٹ کو متوازن کرنے کی جانب توجہ نہیں دی ۔یاد رہے کہ 2000کی ابتدا تک فرانس اور جرمنی کی جی  ڈی پی برابر تھی اور تب جرمن حکومت نے ضروری اصلاحات کی تھیں تاکہ آئندہ ملک کی ترقی کو یقینی بنایا جاسکے جب کہ فرانس نے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔یہی وجہ ہے کہ آج جرمنیز کی قوت خرید فرانسیسی باشندوں کے مقابلے میں 17فیصد زیادہ ہے ۔اسی طرح جرمنی نے مزدوروں کی اجرت کو بھی کنٹرول کیا جب کہ فرانس میں یہ اضرتیں اس قدر تیزی سے بڑھیں کہ اشیاء کی قیمتیں مارکیٹ کے مقابلے سے باہر نکل گئیں اور اب یورپ میں فرانس کا تجارتی حصہ 13.5فیصد سے گر کر 10.3فیصد پر آگیا ہے ۔ فرانس میں بے روزگاری کی شرح کوششوں کے باوجود 10فیصد سے کم نہیں ہورہی جس کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا ہے اور 25برس سے کم عمر نوجوانوں میں بے روز گاری کی شرح 25فیصد ہے ،جب کہ جرمنی میں یہ شرح 2فی صد سے بھی کم ہوچکی ہے ،یہی وجہ ہے کہ لی پین کا روزگار کا نعرہ 25برس سے کم عمر فرانسیسی ووٹرز کو سب سے زیادہ ایپل کررہا ہے ،جب کہ عمر رسیدہ ووٹراس کا مخالف ہے کیونکہ اسے یوروزون سے نکلنے پر اپنی پینشن رکنے کا خطرہ ہے ۔اس کے علاوہ ٹیکسیز کی انتہائی بلند شرح اور تجارتی معاملات میں غیر معمولی بندشیں اور ان کے نتیجے میں وقت کی طوالت نے نوجوان سرمایہ داروں کو لندن کا رُخ کرنے کا مجبور کردیا ہے جہاں نسبتاً زیادہ آسانیاں ہیں۔
پھر فرانس مین دہشت گردی کا مسئلہ بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے ۔اب تک پیرس سمیت 3فراسیسی شہروں میں عام شہری دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہین ۔ہوئی اڈوں ،ریلوے اسٹیشنز ،بازاروں ،کھیل کے میدانوں ،اہم اداروں اور حتی ٰ کہ پارکس تک میں فوجی اہل کار گشت کرتے پھر رہے ہیں اور اس بارے میں چند برس قبل تک سوچا بھی نہ جاسکتا تھا۔اب آزاد فضائوں میں سانس لینے والا فرانس کا شہری پابندیوں اور گھٹن کا شکار ہوتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے لی پین جیسی قوم پرست رہنما انتہائی مقبول ہورہی ہیں۔وہ بار بار فرانسیسی شہریوں کو یہ یاد دلا رہی ہے کہ جن اقدار کی وجہ سے فرانس دنیا بھر میں مشہور تھا ،وہ اب ناپید ہوتی جارہی ہے ۔اس ضمن میں لی پین مسلمانوں کو ،جودیگر یورپی ممالک کے مقابلے کے مقابلے میںفرانس میں سب سے زیادہ ہین مورد الزام ٹھہراتی ہیں ۔وہ اسکارف سے لے کر مسلمانوں کے دوسرے رسوم و رواج کو تنقید کا نشانہ بناکر انہیں فرانس کے لئے ایک خطرہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اس کے ساتھ ہی تارکین وطن کو بھی ملک کی مشکلات کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں خیال رہے کہ شام اور دوسرے عرب ممالک سے آنے والے تارکین وطن کی وجہ سے یورپ میں جو افرا تفری پھیلی اُس نے بھی لی پیں جیسے قوم پرستوں کو خاصی تقویت دی ۔دراصل جیسے جیسے ـفرانس میں تارکین وطن کی آمد میں اضافہ ہوا ویسے ویسے یہاں دہشت گردی کی وارداتیں بھی بڑھیں ،جو یورپ کے دوسرے ممالک تک پھیلتی چلی گئیں اور ان کے نتیجے میں لی پین کو یہ جواز پیش کرنے کا موقع ملا کہ
تارکین وطن بالخصوص مسلمان فرانس اور یورپ کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس موقعہ پر مسلم ممالک کی حکومتوں، اہل دانش اور میڈیا نے اس پراپگنڈے کے سدباب کی ہجائے صرف یورپ اور امریکا پر تنقید جاری رکھی، جو مزید نقصان دہ ثابت ہوئی اور اب یورپ اور امریکا میں تارکین وطن کو ناپسندیدہ سمجھا جا رہا ہے اور ان پر حکومتوں کی جانب سے عائد پابندیوں کو خو ش آمدید کہا جا رہا ہے ۔ ان نامساعد حالات میں مسلمان سیاست دانوں کو سیخ پا ہونے کے بجائے مذاکرات کرنے چاہیں اور مغربی میڈیا کو قانونی تارکین وطن کی حمایت پر آمادہ کرنا چاہئے اور اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو پھر دوسرے یورپی ممالک میں بھی لی پین جیسے قوم پر ست رہنمائوں کی کامیابی یقینی ہو جائے گی۔
مسلم دنیا کیلئے ایک اور مشکل یہ پید اہوگئی ہے کہ مغرب کی نظر میں مشرق وسطیٰ کے تیل پید اکرنے والے ممالک کی اہمیت کم ہوتی جارہی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے ان کی امداد بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ اسی طرح جب مغربی ممالک کو پہنچنے والے نقصانات پر اسلامی ممالک کے ذرائع ابلاغ اور اہل دانش خوشیاں مناتے ہیں تو اس سے مغرب میں یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے۔ کہ اگر اسلامی ممالک مغرب سے اتنی نفرت کرتے ہیں تو پھر ان کو امداد یوں دی جائے؟ ان حالات میں ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ تعلیمی ویزون پر پابندی کے بعد کہیں تعلیم و تربیت اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر بھی پابندی کی آوازیں بلند ہونا شرو ع نہ ہو جائیں، جس کے مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ خیال رہے کہ آج لی پین جیسے قوم پرست لیڈرز کی ایک پوری نسل مغربی ممالک میں پروان چڑھ چکی ہے جب کہ بدقسمتی سے اسلامی دنیا نے اس کے منفی اثرات کے تدارک کیلئے ابھی تک سوچ پچارہی شروع نہیں کی،کیونکہ ہم نے اپنی سوچ کیوں ایک خول اورمختلف اور اقسام کے تعصبات میں بند کرلیا ہے۔ اسلامی ممالک کا میڈیا، ماہرین اور اہل دانش اسی ماحول میں جینا چاہتے ہین اور عوام کو بھی چین کی نیند سلا نا چاہتے ہیں لیکن اندیشہ اس بات کا ہے کہ جب جاگیں تو کہیں سب کچھ لُٹ نہ چکا ہو۔ آج ہم ان ممالک کے متعدل رہنمائوں اور سیاسی جماعتوں سے بات چیت پر آمادہ نہیں اور ان سے نفر ت کرتے ہیں لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ کل ہم ان ممالک کی انتہا پسند اور قوم پرست قیادت کی پالیسیاں برداشت کرنے پر مجبور ہو جائیں ۔ رواں برس کے آغاز میں بعض مسلم ممالک کے میڈیا ، سیاست دانوں اور اہل دانش نے جن میں پاکستان بھی شامل ہے، مغربی قوم پرستی کے طوفان کا ادراک کئے بغیر ، صدر ٹرمپ کے خلاف محاذ بنایا تھا اور اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرانس بھی ان کا ہدف ہوگا؟ اسی طرح برطانیہ میں بریگزٹ، تارکین وطن کے خلاف ووٹ ہے، جس کے اثرا ت مستقبل میں نظر اائیں گے۔ آخر ہم کس کس کی مخالفت کریں گے؟ یہ مسلم دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیا صرف تنقید اور نفرت سے کسی مسئلے کا حل نکل سکے گا اور کیا ایک ایسے وقت میں ممالک ایک دوسرے کے قریب آسکیں گے کہ جب تہذیبوں اور نظاموں کے درمیان مقابلہ جاری ہو؟ اس وقت مغربی ممالک کا جو نقشہ سامنے آرہا ہے اس سے ان کے اپنے مسائل کو بھی نشان دہی ہوتی ہے اور ایسے میں ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہوگا کہ وہ پاکستان ،افغانستان ایران ، شام ، لیبیایا عراق کی تباہی پر غور کرسکیں؟ ایسے میں اگر کوئی مسلم ملک ، چین اور روس کی جانب رجوع کرنے کو ان مسائل کا حل سمجھتا ہے ،تو اسے یہ ذہن میں رکھنا ہوگا کہ چین کی معیشت کی رفتار14سے گر کر 6.5پر آچکی ہے ، جب کہ روس کی معیشت منفی اشاریوں میں ہے۔ پھر اس کا ماضی بھی مسلم ریاستوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے حوصلہ افزا نہیں ہے۔
رواں صدی کے آغاز سے اب تک فرانس میں آنے والی تمام حکومتوں نے مالیاتی و اقصادی اصلاحات کے نفاذ کے لئے نی دلانا کوششیں کیں، جو ناکام رہیں، جب کہ موجودہ صدر ہولاندے نے تو 75فیصد ٹیکس کا نظام لا کر شدید بے چینی پیدا کر دی ۔ یہی وجہ ہے کہ اب فرانسیسی عوام کی خواہش ہے کہ وہ موجودہ قیادت سے کسی طرح نجات حاصل کر لیں۔ اس وقت فرانسیسی رہنما مسائل کا جو حل پیش کر رہے ہیں، وہ ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ لی پین زیادہ ترخرابیوں کا ذمہ دار بیرونی طاقتوں کو قرار دیتی ہے۔ ان کے نسخے کے مطابق فرانس کی یورپی یونین سے علیحدگی ضروری ہے، کیوں کہ اس نے فرانس کی خود مختاری اور اداروں کو تباہ کرکے اسے تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ مسلمانوں اور تارکین وطن کی فرانس آمد کو بھی خرابیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں اور ان پر شدید قسم کی پابندیاں لگانے کی تجاویز دیتی ہیں، نیز وہ گلوبلائزیشن کی بھی سخت مخالفت ہیں اور اس کے مقابلے میں دو طرفہ معاملات کو بہتر گردانتی ہیں۔ لی پین کے برعکس میکرون خود کو گلوبلائزیشن کا چمپئن بنا کر پیش کرتے ہیں، ان کے ایجنڈے کے مطابق فرانس کو پہلے سے زیادہ لبرل بنا یا جانا چاہئے اور تارکین وطن خوش آمدید کہتے ہوئے ان کی مہارتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ نیز، لیبر قوانین میں لچک پید اکرنی چاہئے ، میکرون یورپی یونین کے زبردست حامی ہیں اور اسے فرانس کی ترقی کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں۔
اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو گزشتہ 150؍برس میں کم از کم  تین مرتبہ جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرانسیسی رہنمائوں نے یورپی یونین تشکیل دینے میں اہم کردار ادا کیا تاکہ مستقبل میں اس قسم کے خطرات کا سدباب کیا جاسکے۔ لیکن جرمنی آج پھر یورپ کی سب سے بڑی طاقت بن چکا ہے۔ فرانس دوسری عالمی جنگ جیت کر بھی جرمنی سے بہت پیچھے ہے، جب کہ جرمنی جنگ ہارنے اور ٹوٹنے کے باوجود بھی آج دوبارہ متحد ہو کر یورپ پر معاشی حکمرانی کر رہا ہے ۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ میدان جنگ کی جیت دیر پا نہیں ہوتی، بلکہ معاشی جد و جہد کسی قوم کو برتر بناتی ہے اور جرمنی، جاپان اور چین اس کے جیتے جاگتے ثبوت ہیں۔ ان تینوں ممالک نے دوسری عالمی جنگ میں شکست کھائی تھی لیکن آج 72؍برس بعد دنیا ان کی پیروی کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ آج فرانسیسی دنیا کے سب سے زیاہ قنوطی شہری ہیں کہ مل کے 83؍فیصد باشندے ہر وقت پر رونا روتے ہیں کہ دنیا رہنے قابل نہیں رہی اور روز بہ روز بدتر ہوتی جارہی ہے، جب کہ صرف تین فیصد اس زمین کو قابل سمجھتے ہیں ،اس وقت نہیں یہ احساس بھی کھائے جا رہا ہے کہ فرانس جو ماضی میں دنیا بھر کی تہذیبوں کیلئے روشنی کا مینا رہا تھا اب اپنا مقصد اور سمت کھو بیٹھا ہے اور دائیں یا بائیں بازو کی حکومتیں قومی مفادات کو پارٹی کے مفادات سے بالا تر سمجھنے میں ناکام رہیں۔ لی پین کے حامیوں میں مایوسی اور نیم خواندہ نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے، نیز، مضافاتی علاقوں میں رہنے والے وہ افراد بھی ان کے حامی ہیں کہ جو صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے بے روزگار ہوگئے اور لی پین انہیں روزگار فراہم کرنے کا وعدے کررہی ہیں جب کہ میکرون کی حمایت نسبتاً خوش حال شہروں میں مقیم افراد کو ہے اور اسی لئے وہ یورپ کے اتحاد اور گلوبلائزیشن ہی کو مسائل کا حل سمجھتے ہیں۔ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں اگر کسی بھی امید وار نے واضح اکثریت حاصل نہ کی ، تو یہ الیکشن دوسرے مرحلے میں جاسکتے ہیں اور اکثر مبصرین ان انتخابات کے دو رائونڈز ہوتے دیکھ رہے ہیں افسوس ناک بات یہ ہے کہ مشکل حالات میں بھی فرانسیسی باشندے صرف گلے ، شکوے کرتے رہے اور ہمیشہ اصلاحات کی مخالفت کی۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اٹھارہویں صدری کے آخر میں فرانس میں آنے والے انقلاب کے اثرات نے پوری دنیاہل ڈالی تھی تو کیا قوم پرستی کی لہر کی صورت میں یہاں آنے والا انقلاب بھی اس قسم کا بھونچال لانے کی صلاحیت رکھتا ہے؟

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جموں و کشمیر: وزیر اعظم نریندرمودی نے دنیا کے سب سے اونچے ‘چناب ریل پل’ کا افتتاح کیا
تازہ ترین
لیفٹیننٹ جنرل پراتیک شرما کا دورہ بسنت گڑھ، سیکورٹی صورتحال کا لیا جائزہ
تازہ ترین
وزیر اعظم نریندرمودی ریاسی پہنچے،چناب ریل برج کا دورہ کیا
تازہ ترین
کشمیر میں دو الگ الگ سڑک حادثوں میں 2 افراد کی موت ,5 دیگر زخمی
تازہ ترین

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?