Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

فرانسیسی سینٹ میں پھر پردے کی گونج! | نسلی وصنفی امتیاز کی ’’وہ اپنی خُو نہ چھوڑیں گے‘‘ حال و احوال

Towseef
Last updated: February 25, 2025 9:12 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

رشید پروینؔ سوپور

فرانس میں وقفے وقفے کے بعد مسلم شناختوں کے بارے میں سوال اٹھائے جاتے رہے ہیںبلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ نشانے پر رہتی ہیں اور کبھی کبھی انہیں قانونی شکل بھی دینے کی کوششیں جاری رہتی ہیں۔ اب پھر ایک بار فرانسیسی سینٹ میں پردے کا مسئلہ گونج رہا ہے اور سینٹ نے کھیلوں کے مقابلے میں حجاب سمیت تمام مذہبی علامات پر پابندی کے بل کو منظور کیا ہے ،اگر چہ یہ بل ابھی قانون بننے کے لئے اسمبلی میں جائے گا تاہم دائیں بازو کی حکومت نے اس کی بھر پور تائید کا اعلان کیا ہے ۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور بائیں بازو کے سیاستدانوں نے اس بل کی مخالفت کی ہے ، اس کے ساتھ ہی حقوق انسانی کی تنظیموں اور مسلم کیمونٹی نے اس سے امتیازی قرار دیا ہے ۔

ایمنسٹی نے اپنے موقف کو ایک جملے میں بلکل واضح کردیا ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کے خلاف مذہبی نسلی اور صنفی امتیاز کو بڑھاوا دے گااور اس کی تائید یہ کہہ کر ماہرین اقوام متحدہ نے کی ہے کہ یہ قانون غیر مناسب اور امتیازی خصو صیت کا حامل ہے ۔آپ کو یاد ہوگا کہ اسی ملک فرانس سے کئی بار اس طرح کی مسلم دشمنی اور دل آزاری کی تحریریں یا کار ٹون بھی شائع ہوتے رہے ہیں، جن سے مسلم دنیا سراپا احتجاج ہوتی رہی ہے اور یہ سب سیکولر ازم اور آزادئ رائے کے زمرے میں ڈالا جاتا ہے ، لیکن جہاں اور جن ممالک میں آزادیٔ رائے اور انسانی سوچوں پر بھی پا بند یاں اور عقوبت خانوں کے دروازے کھولے جاتے ہیں ،ان کے خلاف نہ تو بات ہوتی ہے اور نہ کسی کان پر جوں رینگتی ہے۔ بہرحال ہمیں معلوم ہے کہ مغرب کے اہداف مسلمانوں کے لئے کیا ہیں؟ پردہ یا حجاب پچھلے کئی برس کے دوران مختلف ممالک میں موضوع بحث ہی نہیں بلکہ اس مسلے کو لے کر غیر سنجیدہ اور متعصب لوگ زبردست پریشانی کے عالم میں کراہ رہے ہیں ۔یورپی ممالک کی بات ہی نہیں بلکہ یہاں اپنے ملک میں بھی کئی ریاستوں میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ، کئی کالجوں اور تعلیمی اداروں کے علاوہ کمر شل اداروں نے بھی باضابطہ یہ ہدایت جاری کی ہے کہ کوئی بھی ملازم پردہ یا حجاب لگا کر ڈیوٹی پر نہیں آسکتا ۔ظاہر ہے کہ یہ پابندی مسلم کیمو نٹی سے ہی تعلق رکھتی ہے کیونکہ جس سے عام فہم الفاظ میں پردہ یا حجاب کہا اور سمجھا جارہا ہے ،وہ امتِ مسلمہ ہی کے ڈریس کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں کئی مقامات اور کالجوں میں احتجاج یا ہنگامے بھی ہوئے ہیں اور اب بھی جب ضرورت پڑتی ہے اس مسلے میں نئی جان ڈال کر اپنے سیاسی مقاصد کی طرف بڑھا جاتا ہے ۔ بھارت میں تو پچھلے برس ایک کالج میں سٹوڈنٹس کو حجاب نہ پہننے یا دوسرے الفاظ میں پردہ کرنے کی جو مما نعت کی جاچکی ہے یہ اپنے آپ میں ایک تحیر انگیز اور فکر انگیز واقعہ ہے ۔ اصل مسئلہ ’’حجاب‘‘ نہیں۔ کیونکہ حجاب مسئلہ ہو ہی نہیں سکتا ، اس پس منظر میں کہ یہاں بھارت میں ہزاروں برسوں سے ،یوں کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ویدک زمانوں سے ہی کسی نہ کسی صورت میں پردے کا رواج رہا ہے بلکہ پردہ ، گھو نگھٹ ، چنری، ساڑھی ویدک زمانے سے بھی ڈریس کا حصہ رہا ہے ، لیکن اس سب کو اس پس منظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں بہت آسانی ہوگی کہ ،سکھ برادری داڑھی رکھتی ہے ، پگڑی باندھتی ہے ،کرپان رکھتی ہے جو ان کے مذہبی ڈریس کوڈ کی شناختیںہیں اور اس طرح بھارت میں جو رنگا رنگ تہذیبی اور تمدنی کثرتوں کا حامل ہے کسی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتااور اعتراض کرنے کا سوال ہی آئینی اور منطقی طور پر پیدا نہیں ہوتا ، پھر ایک مسلم شناخت نشانے پر کیوں ؟جب کہ یہ بات واضح اور صاف ہے کہ یہ مسلم کلچر میں ہی شامل نہیں بلکہ اہل اسلام کے لئے ایک مذہبی فریضہ اور شرعی حکم ہے اور یہ مسلم خواتین کی اپنی ایک شناخت اور پہچان بھی ہے، جس کے بارے میں سوالات اٹھانا قطعی طور پر دین میں مداخلت بے جا کہی جا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ یورپ اور امریکی معاشرے جو اس دور کی امامت کر رہے ہیں، کے کلچر ، تہذیب و تمدن اور اقدار کو ساری دنیا پر کلہم طور پر محیط ہونے میں اس وقت بھی اپنی ناتوانی اور ضعیفی کے باوجود اسلام علمی ، عقلی اور معاشرتی چلینج بن کے ان کی راہ میں کھڑا ہے اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ نام نہاد مسلم ممالک ہی سہی ،لیکن اس کے باوجود مغربی اور امریکی تمدن کو پوری طرح نہ تو تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی پورے کے پورے ان کے رنگ کو قبول کر رہے ہیں ۔ انیسویں صدی کی آخری دہائی سے آزادی نسواں کی جو تحریک مسلم ممالک میں متعارف کرائی گئی، اس کے پیچھے اصل میں یہی عزائم تھے کہ آہستہ آہستہ اسلامی شعائر اور طرز زندگی کو ہی اسلام کے دائروں سے بہت دور لیا جاسکے اور اس کے لئے یہودی بڑے علما اور فلاسفرس نے ہر خرافات کو علمی اور سائینٹفک لبادوں میں پیش کرکے اقوام عالم اور مسلم قوم کو کچھ زیادہ ہی تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنایا ، مغربی تہذیب و تمدن کا ماحاصل ہی عورت کی وہ آزادی ہے جو بے قیود بے ضابطہ اور کسی بھی دائرے میں مقید نہ ہو اور یہ کہ عورت اپنے جسم کو جس طرح اور جس انداز میں بھی بازار حسن میں پیش کرنا چاہے ، کرنے کی مجاز ہو اور اس پر کسی قسم کی کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سماجی قدغن نہ ہو بلکہ وہ ’’میرا جسم میری مرضی کا عملی طور پر چلتا پھرتا اشتہار ہو ‘‘، یہ بہت ہی مختصر سی ڈیفنیشن ہوسکتی ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ عورت ذات کے وجود کو ہی شرم اور گناہ کا درجہ تھا ، بہت سی اقوام میں بیٹی کی ذلت سے بچنے کے لئے لڑکیوں کا قتل بھی جائز تھا۔ رسول پا کؐ نے ہی عورت کو تاریخ میں پہلی بار عزت اور وقار کا درجہ ہی نہیں دیا بلکہ دنیا سے یہ تسلیم کرایا کہ وہ بھی اللہ کی اسی طرح مخلوق ہے جس طرح کی مرد۔ اور اعلان فرمایا کہ’’ اللہ نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا اور اور اسی کی جنس سے اس کے جوڑ ے کو پیدا کیا۔‘‘ (النساء)،’’خدا کی نگاہ میں عورت اور مرد کے درمیان کوئی فرق نہیں۔‘‘(النساء ۳۲) اور اس طرح سے وہ انقلاب پیدا ہوا جس کی چھاپ آج تک مسلم معاشروں میں کچھ دھندلی ہی سہی پھر بھی نظر آتی ہے اور جہاں عورت کویہ توقیر احترام ، عظمت اور پر جمال تقد س کا مقام عطا ہوا ،وہاں اس محترم اور اونچے پاکیزہ مقام پرٹھہرے رہنے کے لئے کچھ احتیاطی تدابیر اور اور وہ بندھ باندھ لئے جو انسانی فطرت کے عین مطابق بھی ہیںاور اس تقدس کو روز مرہ زندگی کے معمولات کی بجاآوری کے باوجود بر قرار رکھنے میں انتہائی ممدوع و معاون ہیں ، ان میں حجاب بھی ایک فیکٹر ہے ، جس سے مسلم معاشرے کے چہرے سے نوچنے کے لئے ساری مغربی اور مسلم دشمن اقوام متحد طور پر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی معاشروں نے بہت سارے اسلامی احکامات کو اپنے سائنسی ذرائع ابلاغ ، مسلسل منصوبہ سازی اور پیہم تگ و دو سے سے منفی شکل میں پیش کیابلکہ یہ باور کرانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور نہ چھوڑ رہے ہیں جن کی وجہ سے آج کا مسلماں بڑی حد تک اس سے نہ صرف متاثر ہے بلکہ ایک بڑی تعداد مسلموں کی ان معاملات میں مغرب کے ہم خیال ہے۔ یہی معاملہ حجاب کا بھی ہے ، حجاب کاجہاں تک تعلق ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی جگہوں پر عورت کی توقیر ، عزت و احترام اور اس سے محفوظ و مامون رکھنے کے لئے حجاب کے احکامات دئے گئے ہیں ، اس دور میں عجیب و غریب دلائل اور بحثیں اس منطق تک جان بوجھ کر پہنچائی جارہی ہیں کہ حجاب یا پردہ عورت کی آزادی سلب کرتا ہے ، سماج میں اس سے بنیادی حقوق سے ہی محروم کرتا ہے اور ایک طرح سے عورت کو اپنی زندگی قید میں بِتانا پڑتی ہے۔ یہ دو تین جملے شاید مغربی انداز فکراور نقطہ نگاہ کی عکاسی کرتے ہیں ، لیکن کیا واقعی ایسا ہے ؟ یہی وہ بات ہے جس سے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ مرد و زن کے بہتر تعلقات اور ایک فلاحی معاشرے کی استواری پر اگرچہ قرآن حکیم میں بہت ساری آیات کریمہ بنی نوحِ انسان کی رہبری کے لئے موجود ہیں لیکن ہم صرف دو آیت کریمہ کے حوالے سے اللہ کی منشا اور مرضی سے آشنا ہوسکتے ہیں ، ’’اللہ نے تمہارے لئے خود تمہیں میں سے جوڑے بنائے اور جانوروں میں سے بھی جوڑےبنائے،اس طریقے سے وہ تم کو روئے زمین پر پھیلاتا ہے ‘‘(الشوریٰ ۱۱) ظاہر ہے کہ اللہ نے تمام حیوانات کی طرح انسان کے جوڑے بھی اسی مقصد کے لئے بنائے ہیں کہ ان کے تعلق سے انسانی نسل جاری ہو، انسان کی حیوانی فطرت میں صنفی میلان اسی لئے رکھا گیا ہے کہ اس کے زوجین باہم مل کر خدا کی زمین کو اپنی نسل سے آباد رکھےاور پھر مرد کو یاد بھی دلایا کہ ’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ‘‘(البقرہ ۲۲۳) یہاں اس آیت کریمہ میں عورت کو مرد کی کھیتی قرار دے کریہ واضح کیا گیا کہ انسانی زوجین کا تعلق دوسرے حیوانات کے زوجین سے قطعی منفرد اور مختلف ہے ، جس طرح کھیتی میں کسان محظ بیج ڈال کر اپنی ذمہ داری سے فارغ نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اور بہتر فصل کے لئے اس کھیت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس میں پانی بھی دیتا ہے ، کھاد بھی مہیا کرتا ہے اور اس کھیت کی اس طرح حفاظت کرتا ہے کہ بے لگام اور آوارہ جانوروں کو اس کھیت میں منہ مارنے کے مواقع میسر نہ آئیں ،در حقیقت کھیتی اور فصل اس کی محتاج ہوتی ہے کہ اس کا کسان جس نے بیج بوئے ہیں اس کی رکھوالی بھی احسن طریقے سے کرے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت کی عظمت ، عفت ، عصمت اور تقدس کو بر قرار رکھنے کے بہت سارے عوامل اور حفاظتی تدبیروں میں حجاب ایک بہت ہی مناسب اور بہتر تدبیر ہے ۔
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
وادی کشمیر میں آلو بخارے کی کاشت جوبن پر، لیکن نرخوں میں گراوٹ سے کسان پریشان
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 6 ہزار 6 سو 39 یاتریوں کا گیارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین
حکومت نے خزانے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی
تازہ ترین
ریل پتھری میں لاپتہ امرناتھ یاتری کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن جاری
تازہ ترین

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?