سرینگر//پائین شہر کے فتح کدل علاقے میںمسلح تصادم آرائی میں لشکر کا مطلوب ترین کمانڈر معراج الدین بنگرو اپنے ساتھی سمیت جاں بحق ہوا جبکہ مکان مالک کا فرزند اور ایک اہلکار بھی ہلاک ہوئے اور3اہلکار زخمی ہوئے۔ تینوں مہلوکین اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کے بیچ عید گاہ مزار شہداء میں سپرد خاک کیا گیا۔اس دوران جنگجوئوں اور شہری ہلاکت کیخلاف سرینگر میں ہڑتال ہوئی ، متعدد علاقوں میں سنگباری اور شلنگ کے واقعات رونما ہوئے۔شہر سرینگر میں موبائل انٹرنیٹ کو مکمل طور پر معطل کرنے کے ساتھ ساتھ شہر کے حدود میں آنے والے اسکولوں اور کالجوں کو اگلے احکامات تک بند رکھنے کے احکامات صادر کئے گئے۔
خونین جھڑپ
فتح کدل علاقے میں بدھ کی صبح نماز فجر کی اذانیں جب گونجنے والی تھیں تو جنگجوئوں اور فورسز میں جھڑپ کا آغاز ہوا۔مقامی لوگوں کے مطابق معراج الدین بنگرو غالباً رات کے دوران اپنی علیل ماں سے ملنے آیا تھا، اور شاید اس نے فتح کدل علاقے سے گھر فون کیا، کال ٹریس ہوئی اور اسی دوران فورسز نے گھیرا تنگ کردیا۔ معراج بنگرو اپنے ساتھی فید کیساتھ فرار ہوا لیکن فورسز نے دونوں کا تعاقب کیا جس کے دوران دونوں چھلانگ لگا کر ایک بیکری مالک کے مکانمیں گھس گئے۔اس دوران فورسز نے بیکری شاپ کے اوپر مکینوں کا جگایا اور ان سے جنگجوئوں کے بارے میںپوچھ تاچھ کی، لیکن انہیں جنگجوئوں کے بارے میں کوئی علمیت نہیں تھی۔اہل خانہ نے بتایا کہ رئیس احمد بیکری شاپ کے اوپر کمرے میں سویا تھا جبکہ جنگجو دوسرے مکان میں گھس آْئے تھے۔اہل خانہ نے الزام لگا کہ ریئس کو کمرے میں لیا گیا جہاں اسکا ٹارچر کیا گیا اور بعد میں جاں بحق کیا گیا۔اسکے بعد فورسز نے جونہی دوسرے مکان کی تلاشی لینی شروع کی تو جنگجوئوں نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میںجھڑپ شروع ہوئی جس میں ابتدائی طور پر ہی پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ کے اہلکارکمل کمارہلاک جبکہ سی آر پی ایف کے3اہلکار زخمی ہوئے۔اسکے بعد صبح سات بجے تک شدید جھڑپ ہوئی اور بالآخرفورسز نے گن پائوڈر کا استعمال کیا اور دھماکوں سے مکان کو اڑا دیا۔کافی دیر تک علاقے میں خاموشی چھائی رہی اور قریب 8بجے تلاشی کارروائی کی گئی جس کے دوران دو جنگجوئوں اور ایک شہری کی لاشیں بر آمد کی گئیں۔معراج الدین بنگر و جس علاقے میں جاں بحق ہوا وہ انکے گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔علاقے میں جھڑپ کے بعدلوگوں نے جمع ہونا شروع کیااور نعرہ بازی کی۔مقامی لوگوں کے مطابق اس دوران فورسز نے نوجوانوں کو منتشر کرنے کیلئے ٹیر گیس کے گولے داغنا شروع کئے۔
پتھرائو، شلنگ
کچھ لوگوں نے جائے جھڑپ کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی۔اس دوران کچھ نوجوان جائے جھڑپ کے نزدیک پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے۔اس دوران پولیس نے ایڈوائزری جاری کی کہ جائے جھڑپ کی طرف کوئی بھی جانے کی کوشش نہ کریں،کیونکہ کچھ بغیر پھٹا گولہ و بارود وہاں موجود ہو سکتاہے۔ سرکاری طور پر معراج الدین بنگروں کی ہلاکت کی تصدیق کرنے میں کافی وقت لگا،تاہم اس دوران لوگ فتح کدل اور اس کے نواحی علاقوں میں جمع ہوئے اور فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی شروع ہوئیں۔فتح کدل پل کے نزدیک نوجوانوں اور خواتین نے جم کر نعرہ بازی کی۔اس موقعہ پر برہان وانی کے حق میں بھی نعرہ بازی ہوئی،جبکہ بنگرو کے گھر کی طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کیا گیا۔اس دوران نوجوان خانقاہ معلی،فتح کدل،قرفلی محلہ، خانیار اور دیگر جگہوں کی سڑکوں اور چوراہوں پر جمع ہوکر نعرے بازی کرنے لگے۔خانیار،رعناواری، نوہٹہ،خواجہ بازار اور دیگر نواحی علاقوں کے لوگوں نے فہد کے گھر کی طرف پیش قدمی کی۔ عقل میر خانیار میں خواتین سینہ کوبی کرتے ہوئی نظر آئی،جبکہ انکی والدہ پر جیسے پہارڑہی گر گیا۔ نوجوان سڑکوں پر آئے اور اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کرتے ہوئے سنگباری بھی کی، جبکہ فورسز نے ٹیر گیس کے گولے داغے۔
آخری سفر
فتح کدل جھڑپ میں جاں بحق ہوئے2عسکریت پسندوں اور مالک مکان کی لاشیںبدھ شام قریب5بجے انکے رشتہ داروں کے سپرد کی گئیں۔ تینوں مہلوکین کو جلوس کی صورت میں مزار شہداء عید گاہ لایا گیا۔جلوس میں شامل لوگ اسلام و آزادی کے حق میں نعرہ بازی کر رہے تھے۔ معراج الدین بنگر،فہد وازہ اور رائیس احمد کو نعروں کی گونج میں مزار شہداء عیدگاہ پہنچایا گیا،جہاں پر لوگوں کے جم غفیر نے انہیں سپرد لحد کیا ۔عینی شاہدین کے مطابق کئی جگہوں پر رقعت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس سے قبل معراج الدین بنگرو اور رئیس احمدکی نمازہ جنازہ فتح کدل جبکہ فہد کا نماز جنازہ خانیار میں ادا کی گئی۔ تینوں کوسپرد خاک کرنے کے بعد شہر کے کئی علاقوں میں پر تشدد احتجاج ہوا جو شام تک جاری رہا۔
پولیس ردعمل
ڈائریکٹر جنرل پولیس دلباغ سنگھ نے بتایا کہ فتح کدل علاقے میں مصدقہ اطلاع کی بنیاد پر جنگجو مخالف آپریشن شروع کیا گیا ۔ ڈی جی پی کاکہنا تھا کہ جونہی فورسز اہلکاروں نے مکان کے نزدیک جانے کی کوشش کی تویہاں چھپے جنگجوئوں نے فائرنگ شروع کی جس کا فورسز اہلکاروں نے بھی بھر پور جواب دیا۔ انہوں نے بتایا طرفین کے درمیان جاری گولہ باری کے نتیجے میں لشکر طیبہ کے انتہائی مطلب ترین کمانڈر سمیت 2جنگجو جاں بحق ہوگئے ہیں جن کی شناخت معراج الدین بنگرو عرف آصف عرف پیا ولد ثناء اللہ بنگرو ساکن نرپرستان فتح کدل اور فید مشتاق وازہ ولد مشتاق احمد وازہ ساکن عقل میر خانیار کے بطور ہوئی ۔ ڈی جی پی نے بتایا کہ معراج الدین بنگرو نامی جنگجو متعدد امن دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور فورسز کو انتہائی مطلوب تھا۔انہوں نے بتایا کہ بنگرو کے خلاف کئی ایف آئی آر درج تھے جن میں 146/2002زیر دفعہ 7/25پولیس تھانہ مہاراج گنج، 32/2007زیر دفعہ 307آر پی سی7/27پولیس تھانہ مہاراج گنج، 27/2016زیر دفعہ 302آر پی سی پولیس تھانہ زڑی بل جہاں موصوف نے باغ علی مردان خان میں 2پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیاتھا، 69/2016زیر دفعہ 302,392آر پی سی7/27پولیس تھانہ بتہ مالو جہاں انہوں نے ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کرنے کے علاوہ اُس کی سروس رائفل بھی چھین لی تھی۔ پولیس نے بتایا کہ معراج الدین بنگرو وادی میں مختلف مقامات پر گرنیڈ حملوں میں ملوث تھا ۔ پولیس کے مطابق جھڑپ میں جارا گیا دوسرا جنگجو فید مشتاق وازہ بھی متعدد جنگجوانہ سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے اور مختلف تھانوں میں اس کے خلاف کئی مقدمات درج ہے جن میں 45/2016زیر دفعہ 148,149,336,332,427، 28/2017زیر دفعہ 147,148,149,336,152,اور 353شامل ہیں۔پولیس نے مزید کہا کہ جھڑپ کے دوران جو تیسرا شخص مارا گیا وہ جنگجوئوں کے لیے بطور معاون سرگرمیاں انجام دیتا تھا ۔ رئیس احمد سے متعلق پولیس کا کہنا ہے کہ وہ جنگجوئوں کو پناہ فراہم کرنے کے علاوہ ان کے فوجی نوعیت کی مدد بھی فراہم کرنے میں ملوث تھا۔
بنگرو 10سال جیل میںرہا
بلال فرقانی
سرینگر// فتح کدل جھڑپ میں جاں بحق ہوئے لشکر کمانڈر معراج الدین بنگرو،حزب المجاہدین کے صف اول کے کمانڈر محمد عبداللہ بنگرو کے بعد دوسرے ایسے بنگرو ہیں،جس کا نام اہل شہر کے لبوں پر رہا۔ معراج الدین بنگرو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ کمسنی میں ہی وہ مزاحمتی اور آزادی پسند ریلیوں اور جلوسوں میں شرکت کرتے تھے،جبکہ انکا جھکائو بھی تحریک کشمیر کی طرف تھا۔بنگرو کے قریبی رشتہ داروں کا ماننا ہے کہ انکے رشتہ دار اور اہل خانہ بھی اس بات سے واقف تھے کہ ایک دن وہ فورسز کے ساتھ لڑتے لڑتے جاںبحق ہونگے۔ معراج الدین بنگرو کے چاچا جو علاقے میں’’چاچا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں،کا کہنا ہے کہ جب انکا بھتیجا اپریل2016میں جنگجوئوں کے صفوں میں شامل ہوا ’’اس نے دو الفاظ میں ہم سے کہے تھے،یا دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ آخری خواہش اور وصیت کی تھی کہ جب وہ جاں بحق ہونگے تو اس کے کنبے کا کوئی بھی فرد آنسو نہیں بہائے گا،روئے گانہیں‘‘۔ا ن کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ میرے دل و دماغ میں نقش ہیں،اور مجھے یاد ہے کہ جیسے اس نے یہ الفاظ گزشتہ روز کو ہی ہم سے کہے‘‘۔چاچا نے بتایا کہ اس نے کنبے کے تمام افراد سے درخواست کی تھی کہ معراج کی آخری وصیت اور خواہش کا احترام کیا جائے۔انہوں نے کہا کہ2016میں معراج الدین بنگرو کے لشکر طیبہ کے صفوں میں شامل ہونے سے قبل وہ3برسوں تک جیل میں قید رہنے کے بعد رہا ہوئے تھے۔چاچا نے کہا’’اس کی عمر قریب35برس تھی اور10سال اس نے جیل میں ہی گزارے،اور بیشتر اوقات وہ سینٹرل جیل سرینگر میں ہی بند تھا۔بنگروکے اہل خانہ کے مطابق انہوں نے جیل میں ہی اپنی گریجویشن مکمل کی تھی۔
فہد مشتاق کا 7ماہ کا سفر
بلال فرقانی
سرینگر// خانیارسے تعلق رکھنے والے کم عمر نوجوان فہد مشتاق7ماہ تک عسکری صفوں میں شامل رہے۔امسال مارچ کے تیسرے ہفتے میں فہد مشتاق کی تصویر بندوق ہاتھوں میں تھامے سماجی میڈیا پروائرل ہوئی۔سماجی میڈیا پر آئی اس تصویر کے مطابق فہد مشتاق نے 23 مارچ کو لشکر طیبہ میں شمولیت اختیار کی اور اسے ’ابو اسامہ ‘ کوڈ نام دیا گیا ۔ اس دوران فہد کے اہل خانے نے انہیں گھر واپس آنے کی اپیل بھی کی تھی ، لیکن بے سود۔ انکی والدہ میمونہ اخترنے عسکری قیادت اور نوجوانوں سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ اس کے بچے کو واپس بھیج دیں، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔پیشہ سے آشپازہ فہد اپنے والد اور چاچا کے ساتھ کام کرتا تھا۔ انکے چاچاکے مطابق دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد فہد نے پڑھائی ادھوری چھوڑ دی ،اور وہ خاندانی پیشہ(آشپازہ) میں لگ گیا ۔اہل خانہ کے مطابق فہد23مارچ 2018جمعہ کو گھر سے جماعت(تبلیغی جماعت) میں شامل ہونے کیلئے نکلا،تاہم آئندہ روز شام کو بھی جب وہ گھر نہیں پہنچا،تو اہل خانہ کو تشویش لاحق ہو ئی ۔ انہوں نے فہد کی تلاش شروع کی،اور کئی تبلیغی جماعتوں کے ذمہ داروں سے بھی رابطہ قائم کیا،تاہم انہوں نے بتایا کہ وہ انکے ہمراہ نہیں ہے۔عقل میر خانیار سے تعلق رکھنے والے18برس کے فہد مشتاق کے مزید2بھائی بھی ہیں،جو آٹو چلا کر اپنا روزگار کماتے ہیں۔