غلام قادر
موجودہ دور میں جب دنیا تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے، فاصلاتی تعلیم نے انسانوں کو ایک ایسا راستہ فراہم کیا ہے جس کے ذریعے وہ گھر بیٹھے علم حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا انقلاب ہے جس نے تعلیمی میدان میں دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس تعلیم نے وقت، جگہ اور وسائل کی قید کو توڑ کر تعلیم کو ہر فرد کی دسترس میں دے دیا ہے۔ پہلے زمانے میں تعلیم کے لیے کسی ادارے میں حاضری ضروری سمجھی جاتی تھی اور بہت سے افراد محض اس وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جاتے تھے کہ وہ کسی تعلیمی ادارے میں جا کر پڑھنے کے قابل نہ تھے۔ کبھی مالی وسائل کی کمی آڑے آتی، کبھی فاصلے کی مشکل رکاوٹ بنتی، تو کبھی گھریلو ذمہ داریاں تعلیم کے خواب کو چکنا چور کر دیتی تھیں۔ فاصلاتی تعلیم نے ان تمام رکاوٹوں کو ختم کر دیا اور علم کو ہر شخص کے لیے قابلِ حصول بنا دیا۔
آج کے دور میں فاصلاتی تعلیم نے مختلف طبقات کے افراد کو تعلیم حاصل کرنے کے مساوی مواقع فراہم کیے ہیں۔ خواہ وہ دیہات میں رہنے والا کوئی نوجوان ہو، یا کسی چھوٹے شہر کا رہنے والا فرد، یا پھر کوئی ملازمت پیشہ شخص جو دن بھر کی مشقت کے بعد بھی تعلیم کے حصول کا خواہاں ہو، اس نے ان سب کے خوابوں کو حقیقت کا رنگ دیا ہے۔ اس خیال کو تقویت دی ہے کہ تعلیم کسی خاص طبقے یا علاقے کا حق نہیں بلکہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اور ان لوگوں کے لیے بھی علم کے دروازے کھولے ہیں جو جسمانی معذوری یا دیگر مسائل کی بنا پر باقاعدہ کلاسز میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ٹیکنالوجی کی ترقی نے فاصلاتی تعلیم کو مزید مؤثر اور کارآمد بنا دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بدولت دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے، اور آن لائن کلاسز، ویڈیوز، لیکچرز، ای بکس، اور ویبینارز کے ذریعے ہر طالب علم گھر بیٹھے دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں سے علم حاصل کر سکتا ہے۔ یہ سہولت محض نوجوانوں تک محدود نہیں رہی بلکہ عمر رسیدہ افراد بھی اس کے ذریعے اپنی علمی پیاس بجھانے میں مصروف ہیں۔ زندگی بھر سیکھنے کے جذبے کو فاصلاتی تعلیم نے نئی توانائی بخشی ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔
اس طرزِ تعلیم نےخواتین کو بھی تعلیم کے میدان میں نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ بہت سی خواتین جو گھریلو ذمہ داریوں یا سماجی پابندیوں کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر پاتی تھیں، آج فاصلاتی نظام تعلیم کی بدولت اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کو نکھار کر سماج کی ترقی میں بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ یوں اس تعلیم نے نہ صرف انفرادی ترقی میں مدد دی ہے بلکہ معاشرتی ترقی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔۔اس نے تعلیم کے اخراجات میں نمایاں کمی کی ہے۔ روایتی تعلیم میں اداروں کا انفراسٹرکچر، سفر، رہائش، اور دیگر اخراجات شامل ہوتے ہیں، جبکہ فاصلاتی تعلیم میں یہ تمام اخراجات نہایت کم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کم آمدنی والے افراد کے لیے بھی معیاری تعلیم حاصل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔ یوں فاصلاتی تعلیم نے معاشی تفریق کو کم کرنے میں بھی مدد دی ہے۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ طلبہ کو اپنی سہولت اور رفتار کے مطابق سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ہر انسان کی سیکھنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے؛ کوئی جلدی سیکھ لیتا ہے تو کوئی نسبتاً آہستہ۔ روایتی تعلیم میں ایک مقررہ رفتار پر سب کو چلنا پڑتا ہے، لیکن فاصلاتی تعلیم میں طالبعلم اپنی رفتار سے سیکھ سکتا ہے، مواد کو بار بار دیکھ سکتا ہے، اور اپنی سہولت کے مطابق وقت مقرر کر کے پڑھائی کر سکتا ہے۔ اس سے نہ صرف سیکھنے کا معیار بہتر ہوتا ہے بلکہ طالبعلم کا خود پر اعتماد بھی بڑھتا ہے۔موجودہ دور میں جب دنیا کوویڈ-۱۹ جیسی عالمی وبا کا شکار ہوئی تو اس ذریعہ تعلیم نے اپنی اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ دنیا بھر میں تعلیمی ادارے بند ہو گئے تھے، لیکن تعلیم کا سلسلہ فاصلاتی تعلیم کی بدولت جاری رہا۔ یہ فاصلاتی تعلیم ہی تھی جس نے دنیا بھر کے لاکھوں کروڑوں طلبہ کو تعلیمی نقصان سے بچایا۔ اس عرصے میں تعلیم کے نئے نئے ماڈل سامنے آئے اور اس کی اہمیت کو ہر سطح پر تسلیم کیا گیا۔اس سسٹم نے روایتی تعلیم کے میدان میں ایک نیا تنوع پیدا کیا ہے۔ اب تعلیم محض کلاس روم تک محدود نہیں رہی، بلکہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہمہ وقتی عمل بن چکا ہے۔ آن لائن ڈگریاں، سرٹیفکیٹس، شارٹ کورسز اور لائف لانگ لرننگ پروگرامز نے تعلیم کے تصور کو از سر نو ترتیب دیا ہے۔ آج کوئی بھی فرد اپنی مہارتوں میں اضافہ کر کے بہتر روزگار کے مواقع حاصل کر سکتا ہے، اور اپنی زندگی میں مثبت تبدیلی لا سکتا ہے۔اس نے مختلف شعبوں میں بھی مہارت حاصل کرنے کے نئے دروازے کھولے ہیں۔ مثلاً زبانوں کا سیکھنا، آئی ٹی کورسز، کاروباری تعلیم، فنون لطیفہ، طب، انجینئرنگ اور دیگر بے شمار میدانوں میں آن لائن کورسز دستیاب ہیں جن کے ذریعے لوگ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بہتر بنا رہے ہیں۔ یہ وہ مواقع ہیں جو شاید روایتی تعلیم کے ذریعے ہر ایک کو بآسانی حاصل نہ ہو سکتے تھے۔
عالمی سطح پر فاصلاتی تعلیم نے تعلیم کو سرحدوں سے آزاد کر دیا ہے۔ اب کوئی فرد امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا یا کسی بھی ملک کی مشہور یونیورسٹی کا کورس گھر بیٹھے مکمل کر سکتا ہے۔ یہ وہ انقلابی تبدیلی ہے جو تعلیم کے میدان میں فاصلاتی تعلیم کی بدولت آئی ہے۔ اس سے علم کی عالمگیریت کو فروغ ملا ہے اور مختلف ثقافتوں اور نظریات کے حامل افراد ایک دوسرے کے خیالات اور علم سے مستفید ہو رہے ہیں۔
اس نے نہ صرف تعلیمی میدان میں انقلاب برپا کیا ہے بلکہ معاشی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تعلیم یافتہ افرادی قوت کسی بھی ملک کی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ جب زیادہ لوگ تعلیم حاصل کریں گے تو ان کی پیداواریت بڑھے گی، اور یوں معاشی ترقی کے راستے کھلیں گے۔ فاصلاتی تعلیم نے تعلیم کے میدان میں مساوات کو فروغ دیا ہے، جس کا براہ راست اثر سماجی انصاف اور معاشی خوشحالی پر پڑتا ہے۔
اگر ہم فاصلاتی تعلیم کے مستقبل کی بات کریں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مزید ترقی کرے گی۔ مصنوعی ذہانت، مشین لرننگ، ورچوئل ریئلٹی اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز فاصلاتی تعلیم کو مزید مؤثر اور دلچسپ بنائیں گی۔ سمارٹ کلاس رومز، انٹرایکٹو سیشنز اور ذاتی نوعیت کے تعلیمی پروگرام طلبہ کے تجربے کو مزید بہتر بنائیں گے۔ یوں فاصلاتی تعلیم ایک مکمل اور ہمہ جہت تعلیمی ماڈل بن کر ابھرے گی۔
( علی گڑھ مسلم یونیورسٹی )
[email protected]