’محفوظ جنگلاتی علاقہ‘ میں کتنے درخت کاٹے گئے، ایک ہزار یا14ہزار؟
اشفاق سعید
کپوارہ //جی ہاں، ہندوارہ بنگس روڑ کی تعمیر ’محفوظ جنگلاتی علاقہ‘ ، جہاں انسانوں کی آبادی کا دور دور تک کہیں وجود نہیں ہے، کی اجازت دینے کے معاملے میں کوئی قواعد و ضوابط اور قوانین کی پاسداری نہیں کی گئی اورفاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی کی جانب سے اجازت دینے کے موقعہ پر وائلڈ لائف کنزرویشن پلان اور اینوائر منٹل منیجمنٹ پلان جیسے لازمی قواعد کے بارے میں بھی کوئی طلبی نہیں کی گئی ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ محکمہ جنگلات نے 36کلو میٹر، جس کے تحت 15فٹ چوڑا روڑ تعمیر کیا گیا ہے، اور جس کے تحت 14ہیکٹرجنگلاتی اراضی متاثر ہوئی ہے، میں صرف ایک ہزار سر سبز درختوں کی کٹائی کی تفصیلات دی گئی ہیں جبکہ نیشنل فاریسٹ سروے کے مطابق یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔اس گھنے اور محفوظ جنگل میں جنگلی جانوروں اور پرندوں کی پناہ گاہیں بھی تباہ ہوئی ہیں جس کی وجہ سے جنگلی جانوروں کا رخ بستی کی طرف مڑ گیا ہے۔
پرپوزل
مقامی محکمہ جنگلات کے پاس جب آر اینڈ بی کی جانب سے ہندوارہ بنگس روڑ کی تعمیر کے بارے میں مطلع کیا گیا تو مقامی محکمہ جنگلات نے ایک پرپوزل چیف کنزور ویشن فارسٹس کو بھیجا اور اس پرپوزل میں بنگس جنگلات کے کمپارٹمنٹ نمبر 1سے 26 تک36کلو میٹر(28000میٹر) روڑ فیز ایک کیلئے14ہیکٹراراضی متاثر ہونے کے اعداوشمار دیئے گئے۔اس پرپوزل میں صاف طور پر کہا گیا کہ جس روڑ کی تعمیر کی اجازت مانگی گئی ہے، یہ مخروطی جنگلات ہیں جن میں دیودار ،کائل، فر اور دیگر قسم کے گھنے درخت پائے جاتے ہیں۔ اس مکتوب میںمزید لکھا گیا ہے کہ یہاںگھنے جنگلات پہاڑی حیاتیات کے ساتھ مل کر ایک منفرد ماحولیاتی نظام بناتے ہیں۔ یہ علاقہ جنگلی حیات کا مسکن ہے، جہاں ہمالیائی بھورا ریچھ( وائلڈ الائف شیڈول سیکنڈ)، کستوری ہرن، تیندوا ،جیکال، ہمالیائی سنو مرغا پائے جاتے ہیں۔اسکے علاوہ یہاں اس علاقے میںنایاب جنگلی سبزیاں ، قیمتی گچھے،جنگلی حیات کی متنوع رینج کے لیے ایک اہم مسکن فراہم کرتے ہیں۔مزید کہا گیا ہے’’ اس بارے میں ابھی کوئی باقاعدہ سروے نہیں کی گئی ہے لیکن یہ بات مصدقہ طور پر کہی جاسکتی ہے کہ روڑ کی تعمیر سے درختوں کی کٹائی اور جنگلی جانوروں کے رہنے کے علاقے میں منفی اثرارت مرتب ہونگے‘‘۔اس مکتوب میں مقامی محکمہ جنگلات نے اعلیٰ حکام کے نام یہ بھی باور کرایا کہ اگر چہ یہ جنگلی جانوروں کی پناہ گاہ نہیں ہے لیکن یہ ’ محفوظ جنگل‘ کے زمرے میں آتا ہے، جہاں دور دور تک کوئی بستی نہیں ہے۔پرپوزل میں مزید کہا گیا ہے ’’ تجویز کردہ پروجیکٹ کی تعمیر سے عمومی طور پر جنگلی حیاتات اور خصوصاً کچھ نایاب جنگلی جانوروں کے رہائشی مسکن میں منفی خلل پڑے گا، نیز درخت اسکی زد میں آنے سے علاقے کی اہمیت اور خوبصورتی بھی متاثر ہوگی‘‘۔اس میں مزید بتایا گیا ہے’’ یہ گھنے جنگل کا علاقہ ہے،جہاں زمین کاٹنے( اگر اجازت دی گئی) سے جنگلات میں مٹی کا کٹائو ہونے کے خطرات بڑھیں گے اور بڑے پیمانے پر پسیاں گرنے کا احتمال بھی ہے‘‘۔پرپوزل میں واضح طور پر روڑ کی تعمیر کی اجازت نہ دینے اور جنگلاتی اراضی محکمہ تعمیرات کو منتقل نہ کرنے کی مفصل دلیل اور وضاحت کے باوجود فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے اراضی کی منتقلی کے احکامات دیئے لیکن ایسا کر کے سبھی قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑائیں گئیں۔
اجازت میں بے ضابطگیاں
24ستمبر 2019کو محکمہ فاریسٹ اینڈ ماحولیات نیو سیکریٹریٹ نے بنگس روڑ کی تعمیر کیلئے 14ہیکٹر اراضی استعمال کرنے کی اجازت دی۔ فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی کے پاس جب متعلقہ محکمہ کا پرپوزل آیا تو اس کے مندرجات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور نہ روڑ کی تعمیر نہ کرنے کی متعلقہ محکمہ کی وجوہات کے بارے میںکوئی آگے کی کارروائی کی گئی۔ حتیٰ کہ مسلمہ قواعد و ضوابط ایسے معاملات میںوائلڈ لائف کنزوریشن پلان اور ماحولیاتی منیجمنٹ پلان طلب کیا جاتا ہے نیز وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے این او سی لانا لازمی قرار دیا گیا ہے۔کمیٹی نے اجازت دینے سے قبل ان اہم معاملات پر کوئی توجہ نہیں دی۔اتنا ہی نہیں بلکہ کمیٹی نے یہ تفصیلات طلب نہیں کیں کہ گھنے اور محفوظ جنگل کے بیچوں بیچ 15فٹ چوڑا روڑ تعمیر کرنے کے دوران کتنے در خت کاٹے جائیں گے۔کمیٹی نے روڑ کے فیز 1کیلئے راجواڑ رینج میں کمپارٹمنٹ نمبر 2سے تین اے اور بی سمیت 26تک روڑ نکالنے کی اجازت دی۔اجازت نامے میں کہا گیا ہے کہ اس روڑ کی تعمیر سے بنگس کا علاقہ، گلمرگ کی طرح بہت بڑی سیر و تفریح کے مقام میں تبدیل ہوگی ، جہاں وسیع العریض گھاس کے میدان اور گھنے درخت پائے جاتے ہیں اور اس سے 80ہزار کی آبادی کو فائدہ ملے گا۔
درختوں کی کٹائی
وادی بنگس کے آس پاس کے جنگلات کو وسیع پیمانے پر بہت گھنے قرار دیا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع میں واقع یہ وادی اپنے وسیع گھاس کے میدانوں کے لیے مشہور ہے، جو ان گھنے مخروطی جنگلات سے گھرے ہوئے ہیں۔ایک ” گھنے جنگل” یا بہت گھنے جنگل (VDF) کی تعریف ایک ایسے علاقے کے طور پر کی جاتی ہے جہاں ٹہنیوں دار درختوں کی تعداد 70% یا اس سے زیادہ ہو۔ اس درجہ بندی کا استعمال فارسٹ سروے آف انڈیا جیسی تنظیموں کے ذریعہ جنگلات کے احاطہ کی درجہ بندی کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ وادی بنگس کے جنگلات اپنے گھنے مخروطی درختوں جیسے دیودار اور پائن کے لیے مشہور ہیں اور ان کے چاروں طرف نشیبی پہاڑیاں ہیں۔ یہاں سرسبز و شاداب میدان، صاف نہریں ہیں اور یہ متنوع نباتات اور حیوانات کا گھر ہے۔یہ گھنے مخروطی جنگلات میں ڈھکے پہاڑوں سے گھرا ہوا وسیع، سبز گھاس کا میدان ہے، جس میں سے ایک ندی بہتی ہے۔محکمہ جنگلات کو جو رپورٹ محکمہ آر اینڈ بی ڈویژن ہندوارہ نے 2021میں پیش کی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ روڑ کی تعمیر کے دوران صرف 1000درخت کاٹے گئے ہیں لیکن نیشنل فاریسٹ سروے( انونٹری ) کی قومی سروے کے مطابق ایک بہت گھنے قدرتی جنگل میں کہیں بھی 500 سے لے کر 1,000 سے زیادہ درخت فی ہیکٹر ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر، ایک تجارتی جنگل کے لیے 4,450 درخت فی ہیکٹر 1.5 میٹر کی دوری پر ہو سکتے ہیں۔ جبکہ سدا بہار جنگل میں 1,000 درخت فی ہیکٹر یا اس سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو قومی سروے کے مطابق بنگس کے جنگلات،جنہیں خود متعلقہ محکمہ نے ’’ انتہائی گھنا جنگل‘‘ قرار دیا ہے ، میں فی ہیکٹر 500سے لیکر 1000درخت کاٹے گئے ہیں۔قومی انونٹری کے پیمانے کو ملحوظ رکھیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ روڑ کی تعمیر میں ایک ہزار نہیں بلکہ 7500سے لیکر 14000درخت کاٹے گئے ہیں۔جنگلات کی اس طرح بے دریغ کٹائی سے یہاں کے ماحولیاتی توازن میں بڑی تباہی ہوئی ہے۔