سرینگر//سرینگرکی پارلیمنٹ سیٹ کے ضمنی چنائو میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی جیت دراصل دو سیاسی حوصلہ مندوں کی ہار ہے۔کانگریس کے نووارد رہنما طارق حمید قرہ نے خوب زور لگایا لیکن وہ اپنے ہی آبائی اسمبلی حلقہ بٹہ مالو سے ڈاکٹرفاروق کو برتری نہ دلا سکے تاہم سرینگر کی حساس ترین8نشستوں میں سے اہم ترین امیرا کدل حلقہ انتخاب میں وزیر تعلیم سید الطاف بخاری نے اپنی برتری برقرار رکھ کر پارٹی کو کماحقہ راحت کی سانس لینے کا موقعہ فراہم کیا ۔ اسی طرح پی ڈی پی کے اُمیدوار نذیر احمد خان ایک با ر پھر اپنے آبائی حلقہ بیروہ میں مات کھا گئے ۔2014کے پارلیمانی انتخابات میں اُس وقت کے پی ڈی پی امیدوار طارق حمید قرہ نے سرینگر کے 8اسمبلی حلقوں میں سے5میں اپنے مدمقابل فاروق عبداللہ سے برتری حاصل کی تھی ۔ان حلقوں میں حضرتبل ،عید گاہ ،بٹہ مالو،سونہ وار اور جڈی بل اسمبلی حلقے شامل تھے، جبکہ حبہ کدل ،خانیار اور امیراکدل میں فاروق عبداللہ کو برتری حاصل ہوئی تھی ۔بعد ازاں 2014کے ہی اسمبلی انتخابات میں پی ڈی پی حضرتبل ،بٹہ مالو ،سونہ وار اور جڈی بل حلقوں میں برتری کا تسلسل نہ صرف برقرار رکھ سکی بلکہ امیرا کدل نشست پر بھی جیت درج کی جبکہ نیشنل کانفرنس صرف عید گاہ ،خانیار اور حبہ کدل تک محدود ہوکر رہ گئی ۔اس بار چونکہ طارق حمید قرہ پی ڈی پی سے علیحدہ ہوکر کانگریس میں شمولیت اختیار کرچکے تھے اور اپنے اتحادی امیدوار ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حمایت کررہے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سرینگر کے سبھی حلقوں خاص طور پر اپنی آبائی کانسچونسی بٹہ مالو میں فاروق عبداللہ کو بڑی برتری دلانے میں کامیاب ہونگے ۔ لیکن نتائج اس توقع کے برعکس ہیں۔بٹہ مالو اسمبلی میںاتوار کوہوئی پولنگ میں4639ووٹوں میں سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو 2119جبکہ نذیر احمد خان کو 2362ووٹ ملے۔ر یوں پی ڈی پی امیدوار اس حلقہ سے 243ووٹوںکی برتری حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ طارق حمید قرہ کی ذاتی شکست سے کم نہیںہے اور یہ الیکشن نتائج ان کے سیاسی کیرئر کیلئے بہت بڑا دھچکا ہیں کیونکہ وہ اپنے آبائی حلقہ میں اس لہر کو روک نہیں پائے جس کا عذر پیش کرکے وہ پی ڈی پی سے مستعفی ہوگئے تھے ۔طارق قرہ اپنے آپ کو بڑے سیاسی کنواس پر پیش کررہے تھے، لیکن یہ نتائج ان کیلئے کسی دھچکہ سے کم نہیں۔ اس سے یقینی طورپر انکی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی۔مبصرین کا ماننا ہے کہ یہ چناوی نتائج پی ڈی پی امیدوار نذیر احمد خان کیلئے بھی سیاسی چیلنج ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ ایک بار پھر اپنے آبائی اسمبلی حلقہ بیروہ میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے پٹ گئے ، گو فرق بہت معمولی تھا۔جہاں ڈاکٹر عبداللہ اس حلقہ سے 5988ووٹ لینے میں کامیاب ہوگئے وہیں خان کو 5953ووٹ ملے تاہم وہ اپنے حلقہ سے شکست کا تسلسل نہ توڑ سکے ۔2014کے اسمبلی انتخابات میں بھی کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ کر نذیر احمد خان نے بیروہ حلقہ سے 22807ووٹ لئے۔ اُن کے مدمقابل نیشنل کانفرنس کے امیدوار اور پارٹی کے کارگزار صدر عمر عبداللہ نے 23717ووٹ لئے اور وہ 910ووٹوں سے کامیاب قرا ر پائے ۔گوکہ دونوں مرتبہ خان ووٹوں کے قلیل مارجن سے ناکام قرار پائے، تاہم اس بار انہیں پی ڈی پی کی حمایت بھی حاصل تھی جبکہ 2014اسمبلی الیکشن میں پی ڈی پی امیدوار ڈاکٹر شفیع احمد نے 17554ووٹ لئے تھے، لیکن اس بار ڈاکٹر شفیع اور نذیر احمد خان مل کر بھی نیشنل کانفرنس کو پچھاڑ نہ سکے اور این سی کا دبدبہ قلیل ووٹنگ کے باوجود بھی قائم رہا ۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نذیر احمد خان پارٹیاں بدلتے رہے ہیں ،اس لئے حالیہ ایام میں پی ڈی پی میں شامل ہونے کا ان کا فیصلہ سیاسی خود کشی ثابت ہوا اور وہ الیکشن سیاست میںلگاتار تیسری ناکامی سے دوچار ہوگئے ۔ انہیںابھی بھی اپنی پہلی جیت کا انتظار ہے ۔ تجزیہ نگا رمانتے ہیں چناوی نتائج ووٹنگ شرح کو دیکھتے ہوئے بھلے ہی کم اہمیت کے حامل ہوں،مگر قرہ اور خان کیلئے ایک بہت بڑا سیٹ بیک ہیں۔ اس کے برعکس ڈاکٹر فاروق عبداللہ کیلئے یہ مشکل حالات میں ملنے والا بونس ہے کیونکہ وہ اپنے حمایتیوں سے کہہ چکے ہیں کہ وہ زندگی کا آخری الیکشن لڑرہے ہیں ۔