نئی دہلی // ایمنسٹی انٹر نیشنل نے بیرو ہ میں فوج کی جانب سے جیپ پر باندھ کر ایک شہری کومعاوضہ نہ دینے کے ریاستی حکومت کے انکار کو ایک بے رحمانہ کوشش سے تعبیرکرتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی ذمہ داریوں سے پلو جھاڑ کے مترادف قرار دیا ہے۔27اکتوبر کو ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی طرف سے فاروق احمد ڈارکے حق میں اسکی تذلیل کرنے،جسمانی اور نفسیاتی تشدد کرنے، ذہنی دبائو اور غلط طریقے سے اسکے ساتھ برتائو کرنے کیلئے10لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی سفارش کی تھی جسے ریاستی محکمہ داخلہ نے مسترد کیا۔محکمہ داخلہ نے کہا تھا کہ وہ وہ اس لئے سفارشات کو ماننے سے انکاری ہے کیونکہ’’ ریاستی حکومت کیخلاف انسانی حقوق پامالی کا الزام نہیں لگایا گیا ہے اور ایسی کوئی پالیسی سکیم نہیں ہے جس کے تحت معاوضہ دیا جاسکے۔ایمنسٹی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی سرکار وہ فاروق احمد ڈار کے حقوق پامال کرنے کی ذمہ دار نہیں ہے، لیکن وہ اس پر کئے گئے ٹارچر کے عوض بھی معاضہ دینے سے انکاری ہے حالانکہ ٹارچر کرنا بھی انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ایمنسٹی نے کہا ہے’’ حقیقت یہ ہے کہ فاروق احمد ڈار کو ایک جیپ کیساتھ باندھ کر اسکی پریڈ کی گئی، کیا یہ غلط بات نہیں ہے،حکام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متاثرہ شخص کی مشکلات کا ازالہ کرے، جس میں اسے معاوضہ دینا شامل ہے، اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جن افراد پر ذمہ داری تھی انکے خلاف عدالت میںمقدمہ دائرکیا جائے‘‘۔ایمنسٹی کے سنیئر رکن ظہور احمد وانی نے مزید بتایا’’ جموں و کشمیر کی سرکار کو اپنی ذمہ داری سے پلو نہیں جھاڑنا چاہیے،مرکزی وزارت داخلہ بھی اس بات کو یقینی بنائے کہ فوج سول حکام کی تحقیقات میں تعاون دے، یہ کیس بھی اُن کیسوں کی لسٹ میں نہیں رہنا چاہیے جن میں سیکورٹی فورسز پر گذشتہ 27برسوں کے دوران الزامات لگے اور جنہیں کبھی سزا نہیں دی گئی‘‘۔ایمنسٹی نے مزید کہا ہے ’’ بھارت کے لاء کمیشن نے حال ہی میں سفارشات پیش کی ہیں کہ اقوام متحدہ کنونشن برائے ٹارچر میں لگے الزامات کو دور کرنے کیلئے ایک قانون سازی کے عمل کو ممکن بنائے جس سے ملک میں بھی ٹارچر اور دیگر قسم کی چیزوں سے نجات مل سکے‘۔