نئی دہلی//دہلی ہائی کورٹ نے کشمیری رہنمائوں ڈاکٹر فاروق عبداللہ ،عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی پر لوک سبھاانتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے کی مفاد عامہ عرضی کو رد کردیا ہے ۔جسٹس رویندربھٹ کی سربراہی میں ڈویژن بنچ نے ایڈوکیٹ سنجیوکمار کو الیکشن کمیشن سے رابطہ کرنے کو کہا ہے۔اس کے بعد عرضی گزار نے اپنی عرضی واپس لی ۔جمعرات کو عدالت نے نیشنل کانفرنس اورپیپلزڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں کی ’’ بھارتی آئین کے بغیروفاداریاں کہیں اور ہونے ‘‘کی بناپر چنائومیں حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق عرضی کی شنوائی کی۔عرضی میں ان پر بغاوت سمیت دیگرالزامات کے تحت کیس درج کرنے کی ہدایت جاری کرنے کی درخواست بھی کی گئی تھی ۔عرضی گزار نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ ان لیڈروں کو چنائو میں حصہ لینے کی اجازت دینے سے جمہوریت کا عمل مذاق بن جائے گاکیونکہ یہ لوگ کھلے عام ’’بھارت ماتا‘‘کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کرنا چاہتے ہیں اور دو وزرائے اعظموں کا مطالبہ کررہے ہیں ایک جموں و کشمیر کیلئے اور ایک بھارت کیلئے۔عرضی گزار نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ اوراُن کے فرزندعمرعبداللہ وزیراعظم اور صدر ریاست کے عہدوں کی بحالی کا مطالبہ کررہے ہیں جو ناقابل قبول ہیں ۔ محبوبہ مفتی،فاروق عبداللہ اور عمرعبداللہ کے مفسدانہ اور فرقہ وارانہ بیانات بغاوت اور آئین ہند کیخلاف زمروں میں آتے ہیں اس لئے عدالت / الیکشن کمیشن ان کے آئینی ادارے( لوک سبھا )میں داخلے پرروک یا مشروط پابندی لگائے کیونکہ اِن کی وفاداریاں بھارتی آئین کے بجائے کہیں اور ہیں۔ واضح رہے کہ تینوں لیڈروں نے حالیہ ایام میں مرکزی سرکار کو مختلف انتخابی جلسوں کے دوران یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اگر 35-A یا دفعہ 370 ختم کیا گیا تو ریاست اور ہند یونین کے درمیان الحاق خودبخود ختم ہوجائے گا۔ تینوں لیڈروں نے 1953 سے قبل کی ریاست کی پوزیشن بحال کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔